Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سرمایہ دارانہ کلچر — ایک نادیدہ زہر

Articles , Snippets , / Wednesday, November 12th, 2025

rki.news

تحریر: طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو

آج کا نوجوان معاشی ناانصافیوں، طبقاتی فرق اور استحصال کے خلاف آواز تو بلند کرتا ہے، مگر وہ اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ جس نظام کو وہ ختم کرنا چاہتا ہے، اس کی جڑیں ہمارے رویوں، سوچ اور طرزِ زندگی میں پیوست ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام صرف ایک معاشی ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور ثقافتی رویہ بھی ہے — جس سے نجات حاصل کیے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔

آج کے نوجوان اکثر نظامِ سرمایہ داری کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ نظام ختم ہو جائے تو دنیا انصاف، برابری اور سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف نظام کے خلاف نعرے لگانا کافی ہے؟ یا ہمیں اس نظام سے پیدا ہونے والی ذہنیت اور طرزِ زندگی سے بھی بچنا ہوگا؟ اصل لڑائی تو اسی “سرمایہ دارانہ کلچر” کے خلاف ہے جو ہمارے رویوں، سوچ اور اقدار میں رچ بس چکا ہے۔

سرمایہ دارانہ کلچر دراصل ایک ذہنی بیماری کی طرح ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جو انسان کو یہ یقین دلاتی ہے کہ کامیابی صرف زیادہ پیسہ کمانے کا نام ہے۔ اخلاقیات، خدمت، یا انسانی ہمدردی جیسے الفاظ اس کے نزدیک کمزوروں کے بہانے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کسی نوجوان کا ہیرو وہ نہیں جو علم یا خدمت میں آگے ہو، بلکہ وہ ہے جس کے پاس مہنگی گاڑی، برانڈڈ کپڑے اور سوشل میڈیا پر فالوورز کی لمبی قطار ہو۔

اسی کلچر نے “خواہش” کو “ضرورت” بنا دیا ہے۔ ایک نیا فون نکلتا ہے تو پرانا بیکار لگنے لگتا ہے۔ اشتہارات، میڈیا اور فیشن انڈسٹری ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ خوشی خریدی جا سکتی ہے — بس آپ کے پاس اتنے پیسے ہونے چاہئیں کہ آپ وہ جوتے، وہ پرفیوم یا وہ برانڈ خرید سکیں جو “کامیاب لوگوں” کی پہچان ہے۔

یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ معاشرے میں حسد، بے اطمینانی اور ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ عام ہو جاتی ہے۔ مقابلہ (Competition) اپنی جگہ اہم ہے، لیکن جب یہ انسانی تعلقات پر غالب آ جائے تو انسان، انسان نہیں رہتا، محض ایک پروڈکٹ بن جاتا ہے — جس کی قیمت اس کی کمائی اور ظاہری چمک دمک سے لگائی جاتی ہے۔

سرمایہ دارانہ کلچر کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ہمیں خود غرض بناتا ہے۔ ہم دوسروں کی تکلیف سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں، بس اپنی سہولت، اپنی خوشی اور اپنے مفاد کی فکر کرتے ہیں۔ آپ ذرا سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں — زیادہ تر مواد “میں” کے گرد گھومتا ہے: میرا لائف اسٹائل، میری کامیابی، میری شکل، میرا سفر۔ یہ سب بظاہر بے ضرر لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہی وہ نفسیات ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کو زندہ رکھتی ہے۔

لہٰذا اگر واقعی ہم سرمایہ دارانہ نظام سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے کلچر سے بھی آزاد ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کامیابی صرف دولت کا نام نہیں، بلکہ ایک باکردار، باعزت اور باہمدرد انسان بننے میں ہے۔ خوشی چیزوں میں نہیں، تعلقات اور خدمت میں ہے۔

یہ جنگ صرف سڑکوں پر نہیں لڑی جا سکتی — یہ جنگ ہمارے اندر لڑی جائے گی۔ جب نوجوان خود کو اس کلچر کے اثر سے بچائیں گے، تبھی ایک منصفانہ اور انسانی معاشرہ جنم لے گا۔

پاکستانی معاشرہ بھی اب تیزی سے اسی سرمایہ دارانہ کلچر کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل “اپنا نام بنانے” کے چکر میں اکثر اپنی پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ فیشن شوز، لگژری برانڈز، اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے “دکھاوا” کو نیا معیارِ زندگی بنا دیا ہے۔ ایک عام طالب علم بھی اپنی محنت یا کردار سے زیادہ، اپنی پوشاک اور گیجٹس سے پہچانا جانا چاہتا ہے۔ ہم نے اجتماعی خیر کو پسِ پشت ڈال کر انفرادی مفاد کو فوقیت دے دی ہے۔

دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر بھی یہی رجحان دنیا کو ایک مصنوعی دوڑ میں مبتلا کر چکا ہے۔ مغربی معاشرے جہاں مادی ترقی کی انتہا پر ہیں، وہاں ذہنی تناؤ، تنہائی اور خاندانی ٹوٹ پھوٹ بھی عروج پر ہے۔ انسان نے سہولتیں تو حاصل کر لی ہیں مگر سکون کھو دیا ہے۔ دنیا ایک گلوبل مارکیٹ بن چکی ہے — جہاں انسان، جذبات اور تعلقات سب “پروڈکٹس” کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔

ایسے میں آج کے نوجوان کے لیے صرف احتجاج یا نظام سے نفرت کافی نہیں، بلکہ فکری اور شعوری تربیت سب سے اہم ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے، میڈیا، اور فکری حلقے اگر نوجوانوں میں سوچنے، پرکھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت پیدا کریں تو وہ اندھی تقلید سے نکل کر خود آگاہی کی راہ پر چل سکیں گے۔ جب نوجوان یہ سمجھ لیں گے کہ ان کی قدر کسی برانڈ یا لائف اسٹائل سے نہیں بلکہ علم، کردار اور شعور سے ہے — تب ہی وہ سرمایہ دارانہ کلچر کے جال سے آزاد ہو سکیں گے۔

اگر پاکستان کو ایک باوقار، خوددار اور متوازن معاشرہ بنانا ہے تو ہمیں اپنی نئی نسل کی فکری تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ ورنہ دنیا کی یہ چمک دمک ہمیں اندھیروں میں دھکیل دے گی۔

> “نظام سے بغاوت بظاہر آسان ہے، مگر اپنے اندر کے نظام کو بدلنا اور اپنے اپکو فکری شعوری تربیتی نظام سے منسلک کرکے اپنی تربیت کروانا سب سے بڑی جدوجہد ہے۔”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International