Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہم تجھے یاد بہت کرتے ہیں

Articles , / Friday, November 14th, 2025

rki.news

ہم تجھے یاد بہت کرتے ہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
کسی بہت بڑی دانشور صاحبہ سے کسی من چلے نے یونہی بر سبیل تذکرہ پوچھ لیا کہ میڈم کبھی محبت جیسے لطیف جذبے سے آپ کو پالا پڑا؟ میڈم اچھی خاصی گھاک تھیں, نما نما مسکراتے ہوئے بولیں، محبت تو کہیں exist ہی نہیں کرتی، ہر جذبہ جسے گزرتے وقت کی دھول مٹی گارے سا گدلا کر دے، محبت تھوڑی ہو سکتا ہے، محبت تو ہمیشہ رہنے والا، انمٹ، ایک الہامی جذبہ ہے جو جب دلوں پہ دستک دیتا ہے، تو پھر اس دستک کی صدا کبھی بھی مدھم نہیں ہوتی، کبھی بھی ماند نہیں پڑتی، محبت کی صدا دینے والے لب بوڑھے ہو جاتے ہیں، محبت کی صدا سننے والے کان، بہرے ہو نے لگتے ہیں مگر محبت کی صدا، ہمیشہ تازہ دم، صحت مند اور توانا رہتی ہے، محبت بھلے ہاتھوں میں کاسے لیے پھرتی رہے، یا پھولوں کے ہار، محبت کرنے والوں کے چہرے سدا گل و گلزار رہتے ہیں، سدا پر بہار رہتے ہیں، سدا پر نور رہتے ہیں، محبت کرنے والے ہی اس کاینات کی روانی کا سبب ہیں، بھلا کاینات بھی کبھی نفرت کی زبان سے آشنا رہی ہے،کاینات کی تخلیق سے بھی پہلے جذبہ محبت تخلیق ہوا تھا، محبت وہ خوبصورت جذبہ ہے جس کے دھڑکنے سے ہی کاروان حیات رواں دواں اور محو پرواز رہتا ہے، محبت بھلے خفا سے ہو یا کاینات
سے، اس کے رنگ سدا ہی خوشنما اور دلفریب ہوتے ہیں.
اور سچ بھی یہ ہی ہے کہ ہم اور آپ محبت کے انھی خوشنما اور دلفریب رنگوں سے بندھے بندھے زندگی کی کٹھنایوں اور کج اداییوں کو ہنس کھیل کے اپنی جان پہ سہہ بھی لیتے ہیں اور بنا پیشانی پہ بل ڈالے زندگی کی تمام کٹھنایوں سے نبرد آزما بھی ہو جاتے ہیں. ، الفت آرا صرف اٹھارہ سال کی ایک الہڑ دوشیزہ تھی، جسے زندگی، سکھیوں کی سنگت میں صرف اور صرف گڑیوں کی شادی اور کھیل شٹاپو تک ہی نظر آتی تھی، اس سے بڑھ کے نہ اس نے کبھی زندگی کی خبر لی تھی نہ زندگی نے اسے، اس سے بڑھ کر اپنی خبر لینے دی تھی، پھر جب الفت آرا کی شادی ایک بڑے افسر سے ہو گءی تو الفت آرا کو سگای سے بڑھ کر جدای کی قدر سمجھ آی، ماں سے جدائی، باپ سے جدای، بہن بھاییوں سے جدائی، اپنی سکھیوں سے جدای، اپنی گڈیوں سے جدای، اپنے گاوں کے رستوں سے جدای، آف اتنی ساری جداییوں نے اکٹھے ہی حملہ کر کے الفت آرا کے کرب جدای کو دو آتشہ ہی کر دیا تھا، اوپر تلے تین بچوں نے کسی حد تک الفت آراء کے روگ تنہائی اور کرب جدای کو تو سہارا دیا، اور اس کی زندگی کا سونا پن بڑی حد تک دور ہو گیا، بلکہ وہ بچوں کی پرورش اور پڑھای لکھای میں اس بری طرح سے مصروف ہوی کہ سچ میں اپنے آپ ہی سے غافل سی ہو گءی، اسی مصروفیت میں الفت کے بچے جوان اور وہ خود بوڑھی ہو گءی، دونوں بیٹیاں اے لیول کرتے ہی پیا دیس سدھار گییں، جونہی بیٹے کی انجینئرنگ مکمل. ہوی اس نے اپنی کلاس فیلو سے شادی کا کہا، الفت آرا اور ان کے شوہر نامدار نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی، بڑی ہی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوے، دھوم دھڑکے سے کر دی، بڑی بات تھی کہ اکلوتے بیٹے کی شادی اس کی پسند سے کر دی گءی تھی، آنے والی نے آتے ہی اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کیے اور اکلوتے بیٹے کو والدین اور بہن بھائیوں سے یوں جدا کر کے لے اڑی جیسے کوی مکھن میں سے بال کو نکال کر لے جاتا ہے، الفت آرا چونکہ پیدائش ہی سے صابر شاکر تھیں، بیٹے کی جدای کا دکھ بھی صبر شکر سے سہہ گییں، لیکن نو مہینے پیٹ میں رکھنے والی، پچیس سال تک بیٹے کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنے والی ماں کا کرب کوی وہ ماں ہی سمجھ سکتی ہے، جس کا بیٹا اسے عین بڑھاپے میں اپنی فیملی. بنانے کا کہہ کر چھوڑ جاےکہ ماں کو اکلوتا، لاڈلا دن کے ہر ہر پل میں یاد آتا تھا، آنکھ کھلنے سے صبح کے ناشتے تک، دوپہر کے کھانے سے شام کی چاے تک اور رات کو بند آنکھوں میں دفن سپنوں تک، بوڑھی ماں ہر بجنے والی گھنٹی پہ اپنے بیٹے کے آنے کی امید میں ننگے پاؤں ہی دروازہ کھولنے بھاگ کھڑی ہوتی، جانے والے بھلے بھول جاییں کہ پیچھے ایک اداس، تھوڑ دلی بڑھیا جسے آپ کبھی اپنی ماں سوہنو کہتے تھے، جس نے اپنی جوانی کی ساری توانائیاں آپ کو پروان چڑھانے میں صرف کر دی تھیں، وہ آج بھی اپنے پیاروں سے محبت کی انتہا میں ہر محبت کرنے والے سے آگے ہے، اور چونکہ ماں کی محبت پرخلوص ہونے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی صلے اور غرض کے ہوتی ہے تو ماں جانے والوں کو لوٹ آنے کا نہیں کہتی، ان کی ترقی کے لیے دعا گو رہتی ہے ہاں ان کی یاد میں رو رو کے اپنی آنکھوں کی بینائی ضرور گنوا لیتی ہے اور ہولے ہولے اپنے گھر کے کونے کونے میں جا کے نم آنکھوں سے یادوں کی بارات کو یہ نغمہ سناتی ہے، ہم تجھے یاد بہت کرتے ہیں.
صبح سے شام بہت کرتے ہیں
ہم تیرا نام بہت لیتے ہیں
لب سے فریاد بہت کرتے ہیں
جانے والے تو جا چکا ہے پر
گھر کسی اور جا بنایا ہے
بڑی ہی چاہ سے سجایا ہے
پر تیرے اپنے، تیرے ماں جاے
سر پہ الزام بہت لیتے ہیں
یونہی تیرا نام بہت لیتے ہیں
صبح سے شام بہت کرتے ہیں
سن، تجھے یاد بہت کرتے ہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International