از قلم: حاجرہ بی بی۔
شہر: بہاولنگر
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے: ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے ۔
بچہ بچپن میں جو علم سیکھتا ہے وہ اس کے بڑھاپے تک تروتازہ رہتا ہے اور زندگی کے ہر قدم پر اُس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ بچہ جس ماحول میں پھلتا پھولتا ہے یا اس کی سوچ کو جو ڈائریکشن دی جاتی ہے اگر وہ اپنی عقل کو بالائے طاق رکھے تو وہ تمام عمر اسی میں مگن رہتا ہے اور اسی لحاظ سے معاشرے کو پرکھتا ہے۔
ہماری نوجوان نسل سوچنے سمجھنے کے عمل سے کوسوں دور رہنا پسند کرتی ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟؟؟ ہم نے آگے جا کر اس ملک کا نظام چلانا ہے۔
جب تک ہم سوچیں گے نہیں، تحقیق نہیں کریں گے۔۔۔۔تب تک کسی معاملے پر اپنی رائے قائم نہیں کر سکتے۔ ہم ہر معاملے کو دوسروں کے نظریے سے سمجھتے ہیں۔ ہمیں خود کے فیصلوں پر بھروسہ نہیں ہے کیونکہ ہم تحقیق نہیں کرتے، خود کو اتنا باشعور نہیں ہونے دیتے کہ Self Confident بن سکیں۔ اسی لیے آج کل ہر دوسرا انسان Decision Making کے مسئلے کا شکار ہے۔ رائے کب بنتی ہے؟؟؟
جب ہمارے پاس مدّے کا مکمل علم ہو اور ہم اپنی عقل کے مطابق اس پر سوچ بچار کریں۔
اس کی اک بڑی وجہ ماڈرن ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی نے ہم سے سوچنے کی صلاحیت تقریباً چھین لی ہے۔ پہلے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے کتابیں پڑھتے تھے اور اب گوگل سے چند سیکنڈز میں بنا بنایا جواب مل جاتا ہے۔ ہمیں گوگل پر اتنا اندھا اعتماد ہے کہ ہم دوبارا سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اور دلیل یہ ملتی ہے کہ وقت کے ضیاع سے بچ جاتے ہیں لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ وہ بچا ہوا وقت کس موضوں کام میں صرف کرنا ہوتا ہے؟؟؟
Leave a Reply