rki.news
خرالزمان سرحدی ہری پور
عنوان اتنا جامع اور اس قدر وسیع اس کی اہمیت و افادیت پر جس قدر اظہار خیال کیا جاۓ تشنگی پھر بھی باقی رہتی ہے۔ماہرین تو کہتے ہیں کہ تعلیم و تعلم سے احساس بیدار ہوتا ہے۔احساس ایسا قیمتی جوہر آبدار ہے جس کی چمک سے زندگی خوبصورت ہے۔اس گوہر نایاب کی چمک سے سماجی زندگی اور معاشرت کا حسن نکھرتا ہے۔ترقی اور خوشحالی میں بھی ایک چمک پیدا ہوتی ہے۔تعلیم چونکہ ایک احسن عمل ہے۔اس لیے تعمیر معاشرت میں اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض بھی ہےاور انسانیت کی اہم ضرورت بھی۔ماہرین تعلیم کے نزدیک تو تعلیم ایسی دولت اور ثروت ہے جس کی چمک سے زندگی کا گلستان خوبصورت و دلکشی کی تصویر ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دل کے آبگینوں میں حسن و جمال کے جواہر درخشانی حاصل کرتے ہیں۔الفت اور محبت کے چراغ جلتے اور رنگِ حیات میں نکھار پیدا ہوتے ہیں۔مقام شوق کے زمزمے پھوٹتے ہیں۔حرمت و حریت کے حقائق منکشف بھی ہوتے ہیں۔تعلیم تو انسان کی روحانیت بیدار کرتے اوجِ کمال تک پہنچاتی ہے۔ماہرین اسی لیے تو برملا کہتے ہیں”علم روشنی اور جہالت اندھیرا ہے“ تعلیم و تعلم کے عمل میں استاد کا کردار مرکزی ہے۔استاد فنِ تدریس کی جامہ زیبی سے معماران قوم کے دلوں میں احساس کی شمع روشن کرتا ہے بلکہ آداب گفتگو کے اعجاز سے کردار کے غازی بھی بناتا ہے۔کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر استاد کی محنت اور کردار عظیم پر سماج نے کیا دیا۔اس سوال کا جواب آپ راقم سے بہتر انداز سے پیش کر سکتے ہیں۔تاہم عصر نو میں استاد جس قدر محنت اور سعی پیہم سے تعمیر انسانیت کے لیے کردار ادا کرتا ہے اسے عزت و احترام دینی چاہیے۔اس عظیم ہستی کے کارہاۓ نمایاں پر خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیم و تعلم کا مرکزی کردار ہی تو استاد ہے۔مقام انسانیت اور احترام آدمیت کے زاویے ،اندازِ سخن اور رونق بہار ،وطن سے محبت کا درس بھی تو استاد ہی دیتا ہے۔ماہرین تو یہ راۓ بھی پیش کرتے ہیں کہ بہترین تعلیم و تعلم کے لیے تاثر پذیری اور تاثر آفرینی ضروری ہوتی ہے۔جس قدر استاد شوق سے پڑھا رہا ہو شاگردوں کو بھی ذوق ِ تمنا سے سرشار ہو کر پڑھنا چاہیے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عہد حاضر کا طالب علم جب علم کی شمع سے پیار کرے تو علم کے موتیوں سے جھولی بھر سکتا ہے۔سماج کی تعمیروترقی میں جانباز نوجوان کردار ادا کرتے ہیں۔جب یہ راز جان لیتے ہیں۔بقول شاعر:.”ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے“کے جذبہ سے سرشار ہو کر علم سے محبت کے چراغ روشن کرتا ہے اور آگے بڑھنے کی تمنا لیے کمربستہ رہتا ہے۔اسے نہ ظلمتِ شب کے اندیشے ڈرا سکتے ہیں اور نہ ہی خوف کے ساۓ۔بلکہ عجب چیز ہے لذتِ آشنائی کی سرشاری سے علم کی ثروت سے دامن بھر لیتا ہے۔عہد حاضر کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ با مقصد تعلم حاصل کی جاۓ۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعلیم و تعلم میں ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں کے مصداق جزو لازم ہے۔معماران قوم کو یہ بات اچھی طرح جاننے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:.”یہی آئینِ قدرت ہے،یہی اسلوب فطرت ہے جو ہو راہِ عمل پہ گامزن محبوبِ قدرت ہے“تعلیم و تعلم کے عمل میں ہم آہنگی اور رغبت بہت ضروری ہوتی ہے۔زندگی اچھے اسلوب سے بسر ہو تو اثرات بھی گہرے ہوتے ہیں۔معماران قوم میں یہ احساس بھی پیدا کیا جاۓ”خوبصورت اور اچھے الفاظ انسان کی توقیروتکریم شانِ رفعت کا باعث بنتے ہیں“
Leave a Reply