Today ePaper
Rahbar e Kisan International

سقوطِ ڈھاکہ (1971) پاکستانی تاریخ کا قومی المیہ

Articles , Snippets , / Tuesday, December 16th, 2025

rki.news

(تحریر احسن انصاری)

سقوطِ ڈھاکہ 16 دسمبر 1971 کو پیش آنے والا وہ المناک واقعہ ہے جس نے پاکستان کی تاریخ، سیاست اور قومی شعور پر گہرے نقوش چھوڑے۔ یہ سانحہ محض ایک فوجی شکست یا جغرافیائی تقسیم تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ برسوں کی سیاسی غلطیوں، انتظامی کمزوریوں اور قومی سطح پر اعتماد کے فقدان کا نتیجہ تھا۔ پاکستانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سقوطِ ڈھاکہ ایک اچانک پیش آنے والا حادثہ نہیں بلکہ ایک طویل اور تدریجی عمل کا انجام تھا، جسے اگر بروقت سمجھ لیا جاتا تو شاید تاریخ کا رخ مختلف ہو سکتا تھا۔

پاکستان کے قیام کے وقت ہی ریاست کو ایک غیر معمولی جغرافیائی چیلنج کا سامنا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان طویل فاصلہ، مختلف زبان، تہذیب اور سماجی ساخت موجود تھی۔ اس حقیقت کا تقاضا یہ تھا کہ ریاستی نظام میں لچک، مساوات اور شراکت کو بنیادی اصول بنایا جاتا، مگر بدقسمتی سے طاقت اور اختیار کا مرکز زیادہ تر مغربی پاکستان میں رہا۔ اس غیر متوازن نظام نے رفتہ رفتہ مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی کو جنم دیا۔

لسانی مسئلہ اس محرومی کی پہلی بڑی علامت بن کر سامنے آیا۔ اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے کے فیصلے نے بنگالی عوام کو یہ احساس دیا کہ ان کی اکثریتی زبان اور ثقافتی شناخت کو ثانوی حیثیت دی جا رہی ہے۔ 1952 کی لسانی تحریک نے ریاست کو واضح پیغام دیا تھا کہ زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ پاکستانی نقطۂ نظر سے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس مسئلے کو بروقت سیاسی دانش مندی سے حل نہ کرنا ایک بڑی کوتاہی تھی۔

معاشی میدان میں بھی مشرقی پاکستان کو شدید احساسِ محرومی کا سامنا رہا۔ اگرچہ ملک کی معیشت میں اس کا حصہ نمایاں تھا، خصوصاً زرِمبادلہ کمانے میں، مگر ترقیاتی منصوبے، صنعتوں کا قیام اور بنیادی سہولیات زیادہ تر مغربی پاکستان تک محدود رہیں۔ اس معاشی عدم توازن نے عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کو کمزور کیا اور سیاسی بے چینی میں اضافہ کیا۔

سیاسی سطح پر حالات اس وقت نازک ہو گئے جب 1970 کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب عوامی رائے کھل کر سامنے آئی۔ آئینی اور جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار کی منتقلی ناگزیر تھی، مگر سیاسی مفاہمت کی کمی اور طاقت کے استعمال کی سوچ نے اس عمل کو روک دیا۔ پاکستانی نقطۂ نظر سے یہ ایک سنگین سیاسی ناکامی تھی جس نے ریاست کو آئینی راستے سے ہٹا دیا۔

مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ریاستی رِٹ قائم رکھنے کی نیت سے کیا گیا، مگر یہ فیصلہ سیاسی حل کی عدم موجودگی میں کیا گیا تھا۔ اس کارروائی نے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا۔ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، حالات خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے اور عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف کمزور پڑ گیا۔ پاکستانی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سیاسی مسائل کا حل طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات اور عوامی اعتماد سے نکلتا ہے۔

ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مشرقی پاکستان میں کھلی مداخلت کی اور مکتی باہنی کو عسکری اور سفارتی مدد فراہم کی۔ مہاجرین کے بحران کو عالمی برادری کے سامنے ایک انسانی مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا، جس سے بھارت کو بین الاقوامی حمایت حاصل ہوئی۔ دسمبر 1971 میں پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا اور مشرقی محاذ پر پاکستانی فوج شدید دباؤ میں آ گئی۔

مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی افواج جغرافیائی تنہائی، رسد کی کمی اور عددی برتری کے فقدان کے باعث مؤثر مزاحمت نہ کر سکیں۔ بالآخر 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ لمحہ پاکستانی تاریخ کا سب سے تکلیف دہ باب ہے، جب تقریباً ترانوے ہزار پاکستانی فوجی جنگی قیدی بنے۔ اگرچہ یہ فیصلہ ایک شکست کی علامت تھا، مگر اس کا مقصد مزید جانی نقصان سے بچاؤ بھی تھا۔

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو شدید سیاسی اور سماجی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعہ ریاستی نظام، سول و عسکری تعلقات اور قومی وحدت کے تصور پر سوالیہ نشان بن گیا۔ اسی سانحے کے نتیجے میں خود احتسابی کا عمل شروع ہوا اور آئینی و سیاسی اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔

پاکستانی نقطۂ نظر سے سقوطِ ڈھاکہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ قومی یکجہتی زبردستی قائم نہیں کی جا سکتی۔ عوامی رائے کا احترام، صوبوں کے درمیان مساوات، سیاسی مکالمہ اور جمہوری روایات ہی کسی ریاست کو مضبوط بناتی ہیں۔ اگر ان اصولوں کو نظرانداز کیا جائے تو تاریخ اپنے آپ کو دہرانے میں دیر نہیں لگاتی۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کے لیے صرف ماضی کا سانحہ نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے ایک مستقل تنبیہ ہے۔ اس واقعے کو الزام تراشی کے بجائے خود احتسابی کے جذبے سے سمجھنا ہی ایک مستحکم، منصفانہ اور متحد پاکستان کی بنیاد بن سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International