rki.news
تحریر. پونم نورین
کانفرنس ہال میں روشنیاں مدھم اور نیتیں آلودہ تھیں، نوکری کے لیے سیٹیں محدود اور امیدوار بے شمار تھے، آنسہ کے چہرے پہ گھبراہٹ اور ماتھے پہ پسینہ تھا، گنجے ڈایریکٹر نے آنسہ کو جاب آفر لیٹر دیا، آنسہ کی سانس اوپر کی اوپر اوپر نیچے کی نیچے رہ گءی، اس خوشی کے موقعے پہ مصافحہ تو بنتا ہے، ایک موٹا تازہ ہاتھ، ظالم سماج کی طرح پھن پھیلا کے آنسہ اور اس کی نوکری کی راہ میں ہایل ہو گیا، اس کے دماغ نے انتہائی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوے اس کے دل کو صلاح دی، کیا فرق پڑتا ہے ایک من چاہی نوکری حاصل کرنے کے لیے باس سے ہاتھ ملانا کچھ اتنا بھی گھاٹے کا سودا نہیں.بات مصا فحے تک ٹھہر جاے تو بھی اچھا مگر بات مصافحے کو سیڑھی بنا کے آگے چلنا شروع ہو جاتی ہے، کام بڑھتا ہے تو ترقی کی شاہراوں پہ لوگ چلنا نہیں دوڑنا چاہتے ہیں، تو پرسنل سیکرٹری کو پروموشن کا جھانسا دے کر ترپ کا اگلا پتا پھینک دینا اپنا فرض ہی نہیں عین عبادت بھی سمجھا جاتا ہے، اور معانقے کے لیے تقاضا کیا جاتا ہے، اب اگر حرام حلال کی تمیز کو پس پشت ڈال کر صرف دنیاوی فتوحات کو سامنے رکھا جاے تو مصافحہ اور معانقہ تو موجودہ دور میں سیڑھی کے وہ پاے ہیں جن پہ پاوں رکھے بغیر کسی بھی قسم کی نوکری حاصل کرنا محال ہی نہیں تقریباً ناممکن بھی ہے، تو مصافحے اور معانقے کے بعد کچھ لمحات کی عیاشی، جھوٹے وعدوں کے بوجھ اور مردہ بو دیتے احساسات کے علاوہ معاشرے کے کھیسے میں کچھ تھا بھی نہ،عہدہ، مال و زر کی ہوس نے جتنی تذلیل عورت کے جسم کی کی بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ جھوٹی نمود و نمایش، دکھاوے کی بے جا خواہش اور کسی چھو منتر کی طرح ایک دم امیر ہو جانے کی خواہش نے انسان کو کہیں کا بھی نہ چھوڑا اور خواتین جن کی کل متاع ہی حیا کا چولہ تھی وہ تو اس مال و زر کی دوڑ میں یوں شامل ہویں کہ پوچھیے مت اور نہ ہی عورت کو صرف جسم ماننے والے ریوڑ نے اس المیے کو سنجیدگی سے لیا کہ نجانے اس آندھی اور چومکھی لڑائی کَا حاصل کیا ہو گا؟ معاشرہ جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے وہ اسی کشمکش کا شاخسانہ ہے، مردوں کی حاکمیت ختم ہونے میں نہیں آ رہی اور عورت کے شعور کو خواب غفلت سے بیداری کی فرصت نہیں مل رہی، کاش شعور جاگ جاے اور یہ خواہ مخواہ کا فیشن شو جس کا انجام اکثر و بیشتر ہی بے حیائی کی آخری حدوں تک چلا جاتا ہے سے انسانوں کو نجات مل ہی جاے مگر وہ کیا ہے ناں کہ نہ ہی خواہشات کی بوری کو دیمک لگتی ہے نہ ہی تمنا کے لب سلتے ہیں اور ترقی مزید ترقی کی چاہ مصافے سے معانقے اور معانقے سے گناہ کی ایسی دلدل میں جا گرتی ہے جہاں سے بچکے نکلنا بنت حوا کے لیے ناممکن سا ہی ہو جاتا ہے، آنسہ نے سوچا مجھے کیا ضرورت ہے غیر مردوں کو رجھانے اور ان کا منظور نظر بننے کے لیے مصافحے اور معانقے کے نام پر اس طرح کی الٹی سیدھی حرکات و سکنات کرنے کی، اس نے گنجے ڈایریکٹر کے سامنے ٹیبل پہ پڑی ہوئی اپنی سی وی اٹھای اور کانفرنس روم کے گندے، بدبو دار ماحول اور ملگجے اندھیرے سے باہر نکل آی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. naureen1@icloud.com
Leave a Reply