rki.news
تحریر: فخرالزمان سرحدی، ہری پور
ماہرینِ سماجیات کے مطابق عصرِ حاضر کا سماج ایک ایسے آئینے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں اخلاقی زوال اور سماجی برائیوں کی شدت صاف جھلکتی ہے۔ روزمرہ زندگی کے واقعات اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رویّے جو کبھی ناقابلِ تصور سمجھے جاتے تھے، آج معمول بنتے جا رہے ہیں۔ خود غرضی، بے حسی اور عدم برداشت نے سماجی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جبکہ نوجوان نسل میں رویّوں کی تشویش ناک تبدیلی ایک سنجیدہ فکری سوال بن چکی ہے۔
سماج کی اس پست صورتحال کی بنیادی وجہ تعلیم اور تربیت میں پایا جانے والا عدم توازن ہے۔ تعلیمی اداروں میں نصابی علم تو فراہم کیا جا رہا ہے، مگر کردار سازی، اخلاقی تربیت اور انسانی اقدار کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہو پا رہی جو ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔ نتیجتاً ایسا فرد تشکیل پا رہا ہے جو محض ذاتی مفاد اور مادیت کے گرد محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور جس کے نزدیک دوسروں کے حقوق اور جذبات کی وقعت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے بھی اس اخلاقی زوال میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ یہ ذرائع سہولت، رابطے اور معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنے ہیں، مگر دوسری جانب لوگوں کو اپنی ذاتی دنیا میں اس قدر محصور کر دیا ہے کہ اردگرد کے مسائل اور انسانی تکالیف نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ جھوٹی معلومات، منفی رجحانات، بلاجواز تنقید اور رویّوں میں تضاد نے سماجی اقدار کو نقصان پہنچایا اور فکری انتشار کو ف
روغ دیا ہے۔
دوسری طرف معاشرتی انصاف کا فقدان، بڑھتی ہوئی کرپشن اور اخلاقی اصولوں کی پامالی نے اس زوال کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ناامیدی کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بروقت اس صورتحال کا تدارک نہ کیا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں مادیت پرستی اور خود غرضی کی دنیا میں جینے پر مجبور ہوں گی، جہاں جدت کے خوش نما لبادے میں لپٹی سماجی زندگی بالآخر زوال کا شکار ہو جائے گی۔
اس سنگین بحران سے نکلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنی اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنا ہوگا۔ والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنماؤں کو اپنی ذمہ داریاں دیانت داری اور سنجیدگی سے نبھانا ہوں گی تاکہ نوجوان نسل میں مثبت اقدار، برداشت اور انسان دوستی فروغ پا سکے۔ اسی طرح اگر قانون نافذ کرنے والے اور حکومتی ادارے انصاف، شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائیں تو سماج میں پھیلی ہوئی بہت سی برائیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ انسان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ بہتر سماج وہی ہو سکتا ہے جہاں ہر فرد کے دل میں انسانیت، ایمانداری اور ہمدردی کی قدر موجود ہو۔ یقینِ محکم اور عملِ پیہم ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اس پست صورتحال سے نکال کر ایک روشن، پرامن اور پرامید مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
Leave a Reply