rki.news
محمد طاہر جمیل دوحہ قطر
ہم اکثر سنتے ہیں، یار اس کا تو ضمیر ہی مر گیا ہے، کیا اسے مر کر اللہ کے پاس نہیں جانا، کیوں انصاف سے کام نہیں لیتا اور اپنے ضمیر کی آواز کو نہیں مانتا ۔ ضمیر انسان کے اندرونی احساسِ اخلاق یا آواز کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی صلاحیت ہے جو انسان کواچھے اور برے میں فرق بتاتی ہے۔ یہ ہمیں ٹوکتی، شرمندہ کرتی، یا مطمئن کرتی ہے۔ صحیح اور غلط، نیک اور بد کے درمیان فرق کرنے میں مدد دیتی ہے۔ حقیقت میں انسان کا حقیقی ضمیر اور نیت اس وقت سامنے آتی ہیں جب وہ کسی شدید مشکل، خوف، یا بحرانی حالت سے گزرتا ہے۔ اس امتحان کے وقت کیا اسے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے کہ نہیں۔دراصل ضمیر محض کوئی الہامی آواز نہیں ہوتی وہ ہمارے عقائد، اقدار، سماجی تربیت، جذباتی رد عمل، اور ذاتی تجربے اور تربیت سے تشکیل پاتا ہے۔
ضمیر انسان کو ایک متوازن اور نیک زندگی گزارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اوراسے اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں پر عمل کرے اور غیر اخلاقی کاموں سے باز رہے۔ جب کوئی شخص صحیح کام کرتا ہے، تو ضمیر اسے اطمینان دیتا ہے، اور جب وہ غلط کام کرتا ہے، تو ضمیر اسے ملامت کرتا ہے، شرمندگی، پشیمانی، یا قصوروار ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ضمیر تب مرتا ہے جب انسان بار بار غلط کام کر کے خود کو جواز دیناچاہے ،جھوٹ، ناانصافی یا ظلم کو معمول بنا لے،مفاد کے لیے سچ کو قربان کر دے،گناہ پر ندامت ختم ہو جائے اوردل پر بار بار کی تنبیہ کے باوجود کوئی اثر نہ ہو۔ مختصرا جب گناہ پر ندامت نہ ہو تو سمجھ لیں کہ ضمیر مر چکا ہے،ضمیر ایک دن میں نہیں مرتا، آہستہ آہستہ کمزور پڑتا ہے، پھر خاموش ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر۔
~ ضمیر بیچ دیا ہم نے مصلحت کے عوض
اب آئینہ بھی ہمیں بے وفا لگتا ہے
~ جب ضمیر سو گیا دل کے بسترِ ناز پر
پھر نہ ظلم نے شرم کی، نہ ظالم نے۔
اسلام میں ضمیر کو دل کی زندگی سے جوڑا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ گناہوں کی کثرت سے دل پر زنگ چڑھ جاتا ہے سورۃ المطففین میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں “کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ”
(ہرگز نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے) ۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے، “گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے، چاہے لوگ اس کا فتویٰ دے دیں۔”یعنی زندہ ضمیر گناہ پر بے چین ہو جاتا ہے، اور مردہ ضمیر مطمئن رہتا ہے۔
جب کوئی شخص مسلسل اور بار بار غلط کام کرتا رہتا ہے اور اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا رہتا ہے، تو ایک وقت آتا ہے جب ضمیر کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ضمیر کی روشنی اگر ہوتی رہے تو انسان گر کر بھی سنبھل جاتا ہے اور اگر روشنی نہ ریے تو سنبھل کر بھی گرتا رہتا ہے
Leave a Reply