rki.news
ہ اجل بھی کتنی بڑی حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جس کا انکار گو ممکن نہیں ہے مگر قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ کتنی خاموشی سے اجل ہمارے پیاروں کو، ہم سب کے ارد گرد ہوتے ہوئے، ہمارے ہی درمیان سے اپنا انتخاب بنا کر، ہم سے چھین لیتی ہے۔ اجل اتنی خاموشی سے ہمارے پیاروں کو اپنے دام میں جکڑ لیتی ہے، کہ ان کے جانے کا احساس زیاں ہمیں تب ہوتا ہے جب وہ ہم سے دور، منوں مٹی تلے ابدی نیند سو چکے ہوتے ہیں۔ اس وقت کے آنے سے پہلے تک ہم یہی گمان رکھتے ہیں، کہ یہ گردش ماہ و سال سدا یونہی رواں رہے گی، اور ہم سب ہنسی خوشی زندگی سے بھرپور گیت گاتے سدا یونہی ساتھ ساتھ رہیں گے، مگر موت قدرت کا وہ بھیانک نظام ہے جو ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرواتا رہتا ہے، کہ سدا رہنے والی ذات صرف اور صرف ایک وحدہ لا شریک کی ہی ہے۔ باقی ہم سب نے ایک مقررہ دن پر ملک راہی عدم کی طرف کوچ کر ہی جانا ہے۔ اس تمام حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود، یہ ذہن اپنوں کے بچھڑنے کو تسلیم کرنے پر فوری طور پر راضی ہی نہیں ہو پاتا۔ یہ دل آہستہ آہستہ کچوکے لگا کر ہمیں تڑپاتا رہتا ہے کہ کوئی یوں اچانک ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے۔ ہمارے یہی پیارے جب ہمارے پاس، ہمارے ساتھ ہوتے ہیں تب شائد ہم ان کو اتنا محسوس نہیں کر پاتے، جتنا جب وہ دور چلے جاتے ہیں تب ان کی غیر موجودگی کا احساس درد میں گندھ کر سانس کی ڈور سے بندھ جاتا ہے۔ تب وہ ہر پل کہیں کھو جانے کا اپنا احساس ہمیں دلاتے رہتے ہیں۔ تب ہر وہ جگہ ہمیں اپنی طرف بلاتی ہے، جہاں ہمارے پیارے اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہمیں نظر آتے رہتے تھے۔ تب ان سے وابستہ ہر چیز ہمیں باور کرواتی ہے، کہ اب ہمارے پیارے کسی ایسی جگہ جا چکے ہیں، جہاں سے واپسی کا سفر ناممکنات میں سے ہے۔ یہ وہ کڑوی حقیقت ہے، جس حقیقت کو قدرت آپ سے زبردستی منوایا کرتی ہے۔ تب ہمیں اپنے بے بس ہونے کی آگاہی ہوتی ہے، کہ دراصل ہم کتنے بے بس ہیں۔ کتنے بے اختیار ہیں۔ اپنے پیاروں کو، جن سے دوری کا تصور بھی ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں نہیں ہوتا، ہمیں خود اپنے ہاتھوں سپرد خاک کر کے نم آنکھوں سے دنیا کی رونق میں واپس لوٹ آنا ہوتا ہے۔ ہم چاہ کر بھی اپنے پیاروں کو اس سفر آخر پر روانگی سے نہیں روک سکتے۔ ہم رو سکتے ہیں، چیخ سکتے ہیں،لیکن کر کچھ بھی نہیں سکتے۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہمارے لئے اس صدمے کو جھیلنے کے لئے وقت مرہم ضرور بنتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بات ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں ہمہ وقت کے لئے ثبت ہو جاتی ہے، کہ ہماری روح پر کتنا گہرا وار اجل نے کر دیا ہے۔ ہم ہمہ وقت بھی سوچتے رہیں، لیکن ہم چاہ کر بھی اپنے پیاروں کو اپنی زندگی میں دوبارہ واپس نہیں لا سکتے۔ ہم چاہ کر بھی ان کے چھوڑ جانے کا خلا پر نہیں کر سکتے۔ ہم رب دو جہاں سے صبر کی دعا مانگتے ہیں، سکون قلب طلب کرتے ہیں، اور یوں اللہ تعالٰی کی طاقت کے سامنے خود کو سر نگوں کر دیتے ہیں۔ رضائے الٰہی پر راضی ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔ راضی بھی ہو جاتے ہیں، لیکن اس صدمہ پر راضی ہو کر بھی اس دکھ کی شدت میں کمی ہونے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ وقت ایسا ڈاکٹر ہے جو سیکنڈز کے ہر گزرتے لمحے کی اینٹی بائیوٹک دوائی سے آپ کے درد کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ قدرت نے ہر درد کے مریض کے لئے وقت کے اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں مرہم رکھا ہوا ہے۔ جتنی بھی شدت ناقابل بیاں ہو جائے یہ ڈاکٹر آہستہ آہستہ آپ کو زندگی کی طرف لوٹا ہی دیتا ہے۔ وقت مسیحا کے ساتھ ساتھ بہت ہی ظالم ڈاکٹر بھی ہے۔ جو بے رحمانہ طور پر ہمیں رونق دنیا کے آپریشن تھیٹر پر لٹا کر، ہمارے دل و دماغ کی یوں سرجری کر دیتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا کے مسائل میں گم ہوتے چلے جاتے ہیں، لیکن اس سرجری کے بعد بھی تنہائی کے تمام لمحات ہمیں اپنے پیاروں کی یاد دلاتے ہی رہتے ہیں۔ ہم دل میں بسے اپنوں کو کبھی بھول نہیں پاتے۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہم چہرے پر ایک ایسا نقاب ضرور اوڑھ لیتے ہیں، جس کو پہن کر دنیا ہمارے دل میں اٹھتے اس درد کے طوفان سے بے خبر رہتی ہے، جو ہر لمحہ ہمیں کچوکے لگا لگا کر یہ باور کرواتا رہتا ہے کہ ہم اپنے کتنے ہی پیاروں کو تہہ خاک چھوڑ آئے ہیں۔
مرے حال کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجمان نہیں ہے
آج 24 دسمبر ہے۔ والد صاحب کو ملک عدم کے سفر پر روانہ ہوئے پورا ایک ماہ گزر گیا ہے۔ وقت کے اس گھاؤ پر وقت کا مرہم ابھی تک اپنا اثر نہیں دکھا پایا ہے۔ درد کی شدت میں کمی نہیں ہو پائی ہے۔ ایک یاد ہے جو گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے۔ آگے کا سفر آسان بنائے، اور وقت کے مرہم میں وہ تاثیر رکھ دے جو ہمیں اللہ کی رضا پر راضی ہونے کیساتھ ساتھ سکون قلب بھی عطا فرمائے آمین۔ آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے۔ اللہ والد صاحب پر اپنی رحمتوں کہ بارش برسائے رکھے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Leave a Reply