rki.news
(تحریر احسن انصاری)
پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کا عمل بالآخر ایک تاریخی موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے خسارے، انتظامی مسائل اور گرتے ہوئے معیار کا شکار رہنے والی قومی ایئرلائن کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اختیار کی گئی نجکاری کی پالیسی عملی شکل اختیار کر گئی ہے۔ منگل کے روز اسلام آباد میں ہونے والی شفاف اور براہ راست نشر کی جانے والی بڈنگ کے نتیجے میں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی کامیاب بولی دے کر پی آئی اے کے 75 فیصد شیئرز حاصل کر لیے، جسے ملکی معیشت اور نجکاری کے عمل میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے کم از کم قیمت، یعنی ریفرنس پرائس، 100 ارب روپے مقرر کی گئی تھی، جس سے کہیں زیادہ قیمت پر بولی کا اختتام اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ مقامی سرمایہ کار اب بھی قومی اداروں میں پوٹینشل دیکھتے ہیں۔ کامیاب بولی کے بعد پی آئی اے کی مجموعی ویلیو 180 ارب روپے تک پہنچ گئی، جو ایک مثبت معاشی اشارہ ہے۔
بولی کے عمل میں تین بڑے کنسورشیم شریک ہوئے جن میں عارف حبیب کنسورشیم، لکی کنسورشیم اور ائیربلیو شامل تھے۔ پہلے مرحلے میں عارف حبیب کنسورشیم نے 115 ارب روپے کی سب سے زیادہ بولی دی، جبکہ لکی کنسورشیم 101.5 ارب اور ائیربلیو 26.5 ارب روپے کی بولی کے ساتھ شریک ہوا۔ بیس پرائس سے کم بولی دینے پر ائیربلیو پہلے ہی مرحلے میں مقابلے سے باہر ہو گیا۔ دوسرے مرحلے میں عارف حبیب اور لکی کنسورشیم کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا، جس میں بولیاں بتدریج بڑھتی رہیں۔ بالآخر تیسرے مرحلے میں عارف حبیب کنسورشیم نے 135 ارب روپے کی فیصلہ کن بولی دے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ لکی کنسورشیم 134 ارب روپے پر رک گیا۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس کامیاب نجکاری پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے ملکی معیشت کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا۔ وفاقی کابینہ نے بھی کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے فیصلوں کی توثیق کر دی، جس سے اس عمل کو آئینی اور انتظامی استحکام حاصل ہوا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مقامی سرمایہ کاروں کی شمولیت بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی اعتماد کا باعث بنے گی اور نجکاری کے بعد پی آئی اے ایک بار پھر اپنی سابقہ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔
عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے اس موقع پر کہا کہ یہ صرف ایک کاروباری کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی جیت ہے۔ ان کے مطابق پی آئی اے کو دوبارہ ایک عظیم ادارہ بنانے کے لیے پیشہ ورانہ بنیادوں پر محنت کی جائے گی اور جدید تقاضوں کے مطابق اس کی تنظیم نو کی جائے گی۔ یہ بیان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ نئے سرمایہ کار محض منافع نہیں بلکہ ادارے کی طویل المدتی بحالی کو بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔
مشیر نجکاری و چیئرمین نجکاری کمیشن محمد علی نے واضح کیا کہ حکومت کا مقصد قومی ایئرلائن کو فروخت کرنا نہیں بلکہ اسے مستحکم اور خود کفیل بنانا ہے۔ ان کے مطابق بولی سے حاصل ہونے والی رقم کا 92.5 فیصد حصہ براہ راست پی آئی اے کی بہتری، آپریشنل اصلاحات اور مالی استحکام پر خرچ کیا جائے گا، جبکہ صرف ساڑھے سات فیصد رقم حکومت کے خزانے میں جائے گی۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ نجکاری کو محض مالی فائدے کے بجائے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
کامیاب بولی دہندہ کے لیے ادائیگی کا طریقہ کار بھی مرحلہ وار طے کیا گیا ہے۔ مجموعی رقم کا تقریباً 67 فیصد حصہ 90 سے 120 دن کے اندر ادا کیا جائے گا، جبکہ باقی رقم ایک سال کی مدت میں ادا کی جائے گی۔ مزید برآں، کامیاب کنسورشیم کو یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ وہ بولی کے بعد مزید دو پارٹنرز کو شامل کر سکتا ہے، جبکہ باقی 25 فیصد شیئرز کی خریداری کا آپشن بھی مستقبل میں موجود رہے گا۔ اس کے علاوہ کسی مضبوط بین الاقوامی ایئرلائن یا گروپ کو شراکت دار بنانے کی اجازت بھی دی گئی ہے، جو پی آئی اے کے معیار اور عالمی ساکھ کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
وفاقی وزراء محمد اورنگزیب، عطا تارڑ اور بعض ارکان پارلیمنٹ کی بڈنگ کے عمل میں موجودگی نے اس عمل کی شفافیت اور اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ وزیر خزانہ نے نجکاری کمیشن کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے اداروں کو اس مقام تک لے جانا چاہتی ہے جہاں انہیں ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ منرل اینڈ مائنز کا شعبہ مستقبل میں ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت نجکاری اور سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کے مختلف شعبوں کو متحرک کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مجموعی طور پر پی آئی اے کی نجکاری پاکستان میں نجی شعبے پر اعتماد، شفاف عمل اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ایک نمایاں مثال بن کر سامنے آئی ہے۔ اگر نئے سرمایہ کار اپنے وعدوں کے مطابق انتظامی بہتری، جدید ٹیکنالوجی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں تو پی آئی اے نہ صرف ایک بار پھر قومی فخر کا نشان بن سکتی ہے بلکہ ملکی معیشت میں مثبت کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ یہ نجکاری درحقیقت ایک ادارے کی فروخت نہیں بلکہ اس کی بحالی کی ایک سنجیدہ کوشش ہے، جس کے نتائج آنے والے برسوں میں واضح ہوں گے۔
Leave a Reply