Today ePaper
Rahbar e Kisan International

معرفتِ الٰہی اور تصوف

Articles , Snippets , / Tuesday, December 30th, 2025

rki.news

(تحریر و تحقیق احسن انصاری)

معرفتِ الٰہی انسان کی روحانی زندگی کی معراج ہے۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو صرف زبان یا عقل کے ذریعے جاننا نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں میں اس کی عظمت، قدرت اور قربت کو محسوس کرنا ہے۔ معرفت ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کے باطن کو منور کر دیتی ہے اور اس کی سوچ، عمل اور کردار کو بدل دیتی ہے۔ تصوف دراصل اسی معرفتِ الٰہی کے حصول کا راستہ ہے، جو انسان کو نفس کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی تک پہنچاتا ہے۔
صوفیائے کرام کے نزدیک معرفتِ الٰہی کا آغاز شریعت کی پابندی سے ہوتا ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
“ہمارا یہ راستہ کتاب و سنت سے بندھا ہوا ہے”۔
یہ قول اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ تصوف کوئی الگ مذہب یا بے قید طرزِ فکر نہیں بلکہ اسلام کی روحانی تعبیر ہے۔ جب عبادات اخلاص، خشوع اور اللہ کی یاد کے ساتھ ادا کی جائیں تو وہ معرفتِ الٰہی کا ذریعہ بنتی ہیں، ورنہ محض رسم رہ جاتی ہیں۔

تصوف کا مرکزی موضوع تزکیۂ نفس ہے۔ انسان کا نفس اسے غرور، حسد، لالچ اور خود پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں: “میں نے اپنے نفس سے بڑا کوئی دشمن نہیں دیکھا”۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نفس کی مخالفت کو روحانی ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ جب انسان اپنے نفس کو قابو میں لے آتا ہے تو اس کے دل میں عاجزی، صبر، قناعت اور توکل پیدا ہو جاتا ہے، جو معرفتِ الٰہی کی بنیادی نشانیاں ہیں۔

ذکرِ الٰہی تصوف کا نہایت اہم رکن ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے۔ صوفیائے کرام کے نزدیک ذکر صرف زبان کا ورد نہیں بلکہ دل کی بیداری کا نام ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ فرماتے ہیں: “ذکر وہ دولت ہے جو دل کو زندہ اور روح کو مضبوط کر دیتی ہے”۔
جب انسان کا دل ہر حال میں اللہ کی یاد سے وابستہ ہو جاتا ہے تو دنیا کی آزمائشیں اسے متزلزل نہیں کر سکتیں۔
تصوف میں محبت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت محبتِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔ حضرت رابعہ بصریؒ کا مشہور قول ہے: “اے اللہ! میں تجھے نہ جنت کی خواہش میں پوجھتی ہوں اور نہ جہنم کے خوف سے، بلکہ اس لیے کہ تو عبادت کے لائق ہے”۔
یہ قول تصوف کی اصل روح کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عبادت خوف یا لالچ سے نہیں بلکہ خالص محبت سے کی جاتی ہے۔
محبتِ الٰہی کا فطری نتیجہ محبتِ خلق ہے۔ صوفیاء کے نزدیک اللہ تک پہنچنے کا راستہ مخلوقِ خدا کے دلوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں: “جو شخص مخلوق سے بھلائی نہیں کرتا وہ خالق کی معرفت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے”۔

اسی لیے تصوف میں خدمتِ خلق کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانا، مظلوم کی مدد کرنا اور خطا کار کو معاف کرنا تصوف کی عملی تعلیمات ہیں۔
برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں صوفیائے کرام کا کردار تاریخ میں بے مثال ہے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ، بابا فریدؒ اور دیگر بزرگوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق، برداشت اور محبت سے لوگوں کے دل جیتے۔ بابا فریدؒ فرماتے ہیں:
“دل توڑنا کعبہ گرانے سے بڑا گناہ ہے”۔یہی پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا اور اسلام ایک زندہ اخلاقی قوت کے طور پر پھیلا۔

معرفتِ الٰہی انسان کو سکونِ قلب عطا کرتی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
“جس نے اپنے رب کو پہچان لیا، اس نے دنیا کی حقیقت کو سمجھ لیا”۔
جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے تو وہ آزمائش میں صبر اور نعمت میں شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ تصوف انسان کو یہی توازن سکھاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہے مگر دل کو دنیا کا اسیر نہ بنائے۔
آج کے مادہ پرستانہ دور میں انسان بے سکونی، اضطراب اور اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ دولت اور طاقت کے باوجود دل خالی ہیں۔ ایسے حالات میں تصوف اور معرفتِ الٰہی کی تعلیمات ایک شفا بخش پیغام ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اصل کامیابی اللہ کی قربت اور دل کی پاکیزگی میں ہے، نہ کہ صرف مادی ترقی میں۔

معرفتِ الٰہی اور تصوف انسان کو خود شناسی سے خدا شناسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ انسان کے کردار کو سنوارتے، دل کو نرم کرتے اور معاشرے کو محبت، امن اور برداشت کا درس دیتے ہیں۔ اگر ہم تصوف کی اصل روح کو اپنالیں تو نہ صرف فرد کا باطن سنور سکتا ہے بلکہ پورا معاشرہ اخلاقی اور روحانی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

© 2025
Rahbar International