rki.news
انہیں یاد پھر سالِ نو میں کروں کیوں
احمد وکیل علیمی
پُرانے برس میں ہُوا جو ہُوا ہے
مگر شکر “کل” کا کہ محفوظ ہوں میں
نئے سال کا میں کروں خیر مقدم
نیا عزم، امّید پھر سے جواں ہے
پہن کر وہ پھر خول آئیں گے گھر پر
مجھے خوش خصال اب وہ پھر سے کہیں گے
علیمی کے گھر پھر چلو ہم پئیں گے
مری سادگی اور اخلاص دیکھو
نہیں مجھ پہ داغِ بخالت ابھی تک
اسی واسطے دوست آتے ہیں گھر پر
نکلتے مرے گھر سے کچھ فاصلے پر
لگاتے ہیں وہ قہقہے اور کہتے
علیمی کو پھر آج ہم نے ٹھگا ہے
کسی نے بتایا مجھے ان کی نیّت
تو پھر کیسے ، کس پر لُٹاؤں محبّت
سیاست، قرابت کا پھر تذکرہ کیا
سبھی ملنے والے نہیں دوست ہوتے
تو ہم ایسے حالات پر کیوں نہ روتے
مراسم میں در آئی ہے یہ بناوٹ
کہ ناپید ہے اب حقیقی لگاوٹ
سمجھتی نہیں اب سخاوت کو دنیا
ہوا دے رہی ہے عداوت کو دنیا
سمجھتےہیں کہ ابلہی ہے شرافت
تو پھر کیسے قائم ہو باہم رفاقت
نکل جائیں لوگ ایسے اب حافظے سے
انہیں یاد پھر سالِ نو میں کروں کیوں؟
Leave a Reply