rki.news
خلیل وجدان
✍️ تحریر۔۔ عمرفاروق بلوچ
کسی بھی معاشرے کی فکری و تہذیبی تشکیل میں جن افراد کا کردار خاموش مگر نہایت مؤثر ہوتا ہے، ان میں اساتذہ اور اہلِ قلم سرِفہرست آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ تو شہرت کے طلبگار ہوتے ہیں اور نہ ہی نمود و نمائش کو اپنی پہچان بناتے ہیں، بلکہ ان کی اصل شناخت ان کا کردار، علم اور طرزِ فکر ہوتا ہے۔ خلیل وجدان صاحب کا شمار بھی ایسی ہی باوقار اور معتبر شخصیات میں ہوتا ہے۔
خلیل وجدان صاحب سے میرا تعلق محض تعارف تک محدود نہیں رہا بلکہ ہم ایک ہی تعلیمی سفر کے ہم راہ، کلاس فیلو اور فکری ساتھی رہے ہیں۔ وقت نے کروٹ لی، راستے بدلے، مگر ان کی سنجیدہ طبیعت، شائستہ مزاج اور علم دوستی میں کوئی فرق نہ آیا۔ آج وہ ایک نجی کالج میں بحیثیت پروفیسر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور نئی نسل کی ذہنی و فکری تربیت میں مصروف ہیں، جو کسی بھی معاشرے کے لیے باعثِ سعادت ہے۔
ایک اچھے استاد کی پہچان یہ نہیں ہوتی کہ وہ کتنا بولتا ہے، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ وہ طالب علم کے اندر سوچنے، سوال کرنے اور سیکھنے کی کتنی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ خلیل وجدان صاحب اسی قبیل کے استاد ہیں۔ ان کا تدریسی اسلوب سادگی، گہرائی اور فکری ربط کا حسین امتزاج ہے۔ وہ درس گاہ کو محض لیکچر ہال نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے مکالمے، شعور اور فہم کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔
تدریس کے ساتھ ساتھ خلیل وجدان صاحب کی شاعری بھی ان کی شخصیت کا ایک روشن اور اہم حوالہ ہے۔ وہ شاعر جو لفظوں کے شور میں گم نہیں ہوتے بلکہ معنی کی خاموش گہرائی میں اترتے ہیں، بہت کم نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں تصنع نہیں، خلوص ہے؛ مبالغہ نہیں، توازن ہے؛ اور وقتی تاثر کے بجائے دیرپا اثر ملتا ہے۔ ان کا کلام قاری سے فوری داد طلب نہیں کرتا بلکہ اسے سوچنے پر آمادہ کرتا ہے، اور یہی سنجیدہ شاعری کی اصل پہچان ہے۔
خلیل وجدان صاحب کے ہاں فکر کی شائستگی، احساس کی پختگی اور زبان کی تہذیب نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ روایت سے جڑے رہتے ہوئے جدید شعور سے بھی غافل نہیں، اور یہی توازن ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کو معتبر بناتا ہے۔ ان کا قلم نہ تو مایوسی پھیلاتا ہے اور نہ ہی غیر ضروری رومانویت، بلکہ زندگی کو اس کی اصل معنویت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
👈 ہر روز اک نہ اک نئے وہمے کی ذد میں تھا
یہ سوچ کر نکالا ہے پہلو سے اپنا دل۔۔
👈 مٹا دیں، اڑا دیں، سبھی کو جلا دیں،
جو ارمان سینے میں پلتے رہے ہیں،
قدم در قدم کہکشاں بچھ گئی یوں،
شب وصل اشک ایسے جلتے رہے ہیں۔
👈 آنکھوں میں سلگتا ہوا اک شام کا دامن،
دامن کی لگی آگ بجھانے سے رہے ہیں۔
👈 تیرگی چھا گئی ہے دنیا میں
اک دیا سا جلا دیا جائے،
جس سے مجروح ہو آبرو اپنی
ایسے در کو بھلا دیا جائے۔۔۔
دعا ہے کہ خلیل وجدان صاحب کو اللہ تعالیٰ صحتِ کاملہ، درازیٔ عمر اور علم و ادب کے میدان میں مزید توفیقات عطا فرمائے۔ ان کی تدریسی خدمات اور تخلیقی سفر اسی طرح جاری و ساری رہے، اور آنے والی نسلیں ان کے علم، فکر اور کردار سے فیض یاب ہوتی رہیں۔اختتامیہ میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خلیل وجدان صاحب جیسے لوگ کسی ایک ادارے یا عہدے تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنے علم، وقار اور طرزِ فکر کے ذریعے ایک پورے فکری ماحول کو تشکیل دیتے ہیں۔ وہ ان شخصیات میں سے ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں، مگر ان کی محنت اور اخلاص کے اثرات دیر تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں متانت، رویّے میں شائستگی اور فکر میں توازن ایسا وصف ہے جو آج کے شور زدہ عہد میں کامیاب ہوتا جا رہا ہے۔
یکم جنوری کو ان کی تاریخِ پیدائش کے موقع پر ہم نہ صرف ان کی زندگی کے ایک اور سال کا خیرمقدم کرتے ہیں بلکہ علم، ادب اور اخلاقی اقدار سے وابستہ ایک سنجیدہ سفر کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلیل وجدان صاحب کو صحت، سکون اور درازیٔ عمر عطا فرمائے، ان کے قلم کو مزید اثر انگیز، ان کی فکر کو مزید بالیدہ اور ان کی تدریسی خدمات کو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنائے۔
ایسے لوگ کم پیدا ہوتے ہیں، مگر جب پیدا ہوتے ہیں تو معاشرے کو معنی دے جاتے ہیں۔
Leave a Reply