تازہ ترین / Latest
  Monday, October 21st 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

سارا عالم ہی تماشای تھا

Articles , Snippets , / Tuesday, May 7th, 2024

نین تارا ایک تیس سالہ سانولی سلونی ناٹے قد اور بھرے بھرے جسم کے ساتھ ناگن زلفوں والی نار تھی اس کے چار بچے تھے سات سالہ احمد، چھ سالہ کشمالہ، چار سالہ، ساجد اور دو سالہ نور، چار بچوں کی ماں ہو کے بھی نین تارا دکھنے میں کنواری ہی معلوم ہوتی تھی ہر وقت ہنسنے گانے والی نین تارا نے یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے خوبصورت بت اور ہنستے مسکراتے چہرے کو کسی کی نظر لگ جاے گی. نظر لگ جانا یا نظر بد کیا ہوتا ہے؟ کہتے ہیں کچھ شیطانی طاقتیں ہیں جو انسانی جان، مال اور صحت پہ وار کرنے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اس نظر بد کے وہم میں قدیم مصر سے لیکر آج کل کی ماڈرن ایکٹرز، ماڈلز اور عام خواتین سب شامل ہیں کچھ اس سے بچاو کے لیےEvil Eye کا استعمال کرتے ہیں جو پوری دنیا کے بازاروں میں لاکٹ، key chains, seniories, ڈیکوریشن پیسز وغیرہ وغیرہ کی شکل میں وافر دستیاب ہے اس کے علاوہ ہم مسلمان خواتین اپنے بچوں، بوڑھوں اور گھر کے تمام لوگوں پہ آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ پڑھ کر تو نظر بد سے بچنے کا اہتمام کرتی ہی رہتی ہیں. تو نین تارا کب آیت الکرسی کا دم کرنا بھولی کب اس کے سترہویں گریڈ کے بابو شوہر پہ ایک دوسری عورت نے محبت کے ڈورے ڈالے کب کب کی تکرار نین تارا کو پاگل کرنے کے لیے کا فی ہی نہیں بہت زیادہ کافی تھی. نین تارا جیسی ہنس مکھڑی خاتون نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس کا محبوب شوہر کسی اور کی طرف مایل ہونا تو دور دیکھے گا بھی. بس نین تارا نے چپکے سے نیند کی وافر گولیاں کھا کے اس ظالم دنیا سے. مستقل طور پر ہی چھٹکارا حاصل کر لیا. کتنی بزدل تھی اپنے شوہر کی ایک بے وفائی نہ سہہ پای اپنی جان سے بھی گءی اس جہان سے بھی گءی اپنے ہی بچوں کو یتیم و مسکین بھی کر گءی اس کی موت پہ بہن بھائیوں نے بھی اس کے اس بزدلانہ اور گھٹیا فعل پہ جی بھر کے لعن طعن کی کوی اس کے بچے سمبھالنے نہیں آیا بچے رل گیے محروم رہ گیے اس کے شوہر نے اپنی محبوبہ سے نکاح کر لیا اب محبوبہ گھر کی مالکن تھی نین تارا کی ہر شے پہ قابض اور نین تارا کے بچوں کو بار بار یہ طعنے مارتی تھی کہ خودکشی کر نے والی ڈرپوک ماں کی اولاد. ان طعنے تشنوں کے تیر کھا کے پروان چڑھنے والی بدبخت محروم تمنا اولاد نے دیکھا کہ ساری دنیا تماشائی تھی جو مصیبت میں گرفتار انسانوں کا صرف تماشا دیکھتی ہے ان کے کسی مسلے یا مشکل کا حل نہیں نکالتی تو انھوں نے یہ اصول بنا لیا کہ کبھی بھی مشکلات کا سامنا کرنے سے گھبرانا نہیں اور تماشای زمانے کو کچھ بتانا نہیں.
پہلے زمانے میں شاید انسانیت کی رمق انسانوں کو ایک دوسرے کی مدد، دکھ درد میں شامل ہونے کے لیے مردانہ وار آمادہ خیال کر دیتی تھی اب تو یہ دستور بن چکا ہے کہ جو کچھ مرضی ہو جاے آپ نے پرای کیا اپنی بقا کی جنگ بھی نہیں لڑنی. بس گونگے بہرے اور انے کانے بن کے اپنی جی بھر کے بزتی کروای جانا ہے..
عزائم بڑے ہیں تو حوصلے بھی بڑے رکھنے چاہیں اور راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو خندہ پیشانی سے عبور کرنا چاہیے.
چلتی ہوئی ٹرین سے ایک بیس سالہ لڑکا گر کے اسی گاڑی کے پہیوں تلے اس بری طرح سے روندا گیا تھا کہ مانوقیمے کی ایک ڈھیری بن چکا تھا، بوڑھی ماں اور بہن بھی اسی ٹرین میں اپنے بیٹے اور بھائی کی ہمسفر تھیں. انھیں کیا خبر تھی کہ بوگی کے دروازے میں کھڑا عبدل ماجد ایک ہچکولے سے ہی نیچے گر کے جان کی بازی ہار جاے گا. جوان بیٹا جان سے گیا ایسی تکلیف دہ مسافر ت اللہ کسی دشمن کی بھی نہ ہو. خیر مجمع سج گیا چند لوگوں نے مرنے والے کی بوٹیاں اکٹھی کر کے ایک چادر پہ رکھ دیں ہاے ہاے جیسے قربانی کے بکرے کو بوٹی بوٹی کر کے ڈھیری لگا ی جاتی ہے. والدہ اور بہن کو جو صدمہ تھا سو تھا مجمعے میں جب لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں ماں بیٹی کے کانوں میں پڑیں تو ان کی اذیت کءی گنا بڑھ گءی.
بیٹے کا گھر والوں سے جھگڑا تھا
عشق عاشقی کا معاملہ تھا
بچہ نافرمان تھا
نشءی تھا
غرض جتنے منہ اتنی باتیں
دنیا ایسی بیگانی رن ہے جو کسی کی بھی نہیں ہوتی.
خیر یہاں ہر بڑے چھوٹے، سیاسی، غیر سیاسی، بادشاہ یا بھکاری سب کے ساتھ ہی ایک جیسا سلوک ہی ہوتا ہے وہ شعر ہے ناں کہ آ جاو گے حالات کی زد پہ جو کسی روز
ہو جاے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے.
دنیا کی ہسٹری اٹھا کے دیکھ لیجیے پر کسی نے اگر اپنا اچھا وقت خود انجوائے کیا ہے تو برے وقت کا عذاب بھی خود ہی جھیلا ہے. بھلے وہ عراق کی رعد برق ہوں یا انگلینڈ کی پرنسز آف ویلز، امرتا پریتم ہو یا پروین شاکر سب ہی نے اپنے تن من پہ ہی اپنے عذاب برداشت کیے ہاں تماشای دنیا نے مزے بہت لیے. بات جب بھی لڑای جھگڑے یا مذہبی دنگا فساد کی ہوئ تو بھلے وہ سیالکوٹ کے سگے بھائی تھے جنہوں اہل شہر نے سر عام چوری کے الزام میں مار مار کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا یا سر ی لنکا سے آنے والا سیالکوٹ میں بھرے مجمعے کے ہاتھوں بے جا تشدد کے بعد جلا کر راکھ کر دیا جانے والا پر یانتھا کمارا. لوگ ان لڑای جھگڑوں کو ہوا دینے، ان کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کی بجاے انھیں سلجھا بھی سکتے ہیں مگر پھر وہ مزہ وہ چسکا وہ نشہ جو انھیں دنیا کو تکلیف اور اذیت میں دیکھ کے ملتا ہے یہ اس مزے، اس نشے، اس چسکے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اپنے مزے اپنے نشے اپنے چسکے کی قربانی کون دیتا ہے بھلا
دشمنوں، سجنوں سب کی خیر
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International