تحریر:راشد وٹو
رات کے پچھلے پہر اسلام آباد F-10 مرکز میں ایک ٹھنڈے بینچ پر بیٹھا ہوں جہاں میرے اردگرد کئی نامکمل جہاں آباد ہیں اور کئی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ایک داستان ہے مہنگے کیفوں میں بیٹھے عیاش لوگوں کی، جن کی دولت نے زندگی کے ہر اندیشے کو ان کے پاں تلے روند دیا ہے، اور ایک کہانی ہے گھروں کو واپس پلٹتے ان مزدوروں کی، جنھیں آنے والے کل نے بوجھل سوچوں کے بھنور میں الجھایا ہوا ہے۔ ایک افسانہ ہے چائے کے میز پر بیٹھے خوبصورت رومانوی جوڑے کی، جو پیار کی دل نواز اداں سے ایک دوسرے کو لبھا رہے ہیں۔ دوسرا قصہ ہے سگریٹ کا دھواں پھونکتے ہوئے اس عاشق کی اذیتوں کا جو یک طرفہ محبت کی عنایتوں سے نڈھال ہے۔ ایک کردار ہے عالیشان بنگلے کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے شخص کا جو سونے سے پہلے شہر کی رنگینیوں کو آخری نظر دیکھنا چاہ رہا ہے۔ دوسرا وجود ہے پگڈنڈیوں پر پڑے مدہوش نشئیوں کا جنھیں بازار کی بھیڑ اور گاڑیوں کا شور بھی متاثر نہیں کرتا۔ ایک سرگزشت ہے بازار سے گزرتے اس مولوی کی جو روز بروز بڑھتی ہوئی فحاشی پر زیر لب استغفار کا ورد کررہا ہے، دوسری کہانی ہے اس خواجہ سرا کی جو جسم فروشی کی تمنا لیے دبے لفظوں میں پیش کش کررہا ہے، ایک جہاں آباد ہے کچھ دوستوں کی ہنگامہ خیز محفل کا جہاں خوش گپیوں اور قہقہوں کا شور ہے۔ دوسری دنیا میں تنہائی کا وہ مسافر ہے جس کے من میں اذیتوں کی چیخوں کا کہرام ہے۔ مارکیٹ کے دامن میں موسیقی کی ایک بزم سجی ہے جہاں سر اور سنگیت کی دھنوں نے ہر کسی کو مسحور کر رکھا ہے وہیں پر ایک عمارت کے باہر بیٹھے چوکیدار کو گھر سے آنے والی کال نے ہڑبڑا دیا ہے، ان داستانوں کے تمام کرداروں کے کئی روپ اور رنگ ڈھنگ ہے، کوئی خوبصورت سپنوں کے لیے گہری نیند سوتا ہے تو کسی نے خواب دیکھنے ہی چھوڑ دئیے ہیں۔ کوئی کاروان کا راہبر ہے تو کوئی مسلسل دھول کے تعاقب میں ہے، کسی نے اپنی پہلی ہی کوشش میں بازی جیت لی ہے تو کوئی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی ان ذہنی اذیتوں کو شکست نہیں دے سکا جو اس کی روح کے زخموں کو مسلسل گھائل کررہی ہیں۔ کسی نے اپنے وجود کے ہر بوجھ کو مات دے دی ہے تو کوئی اس کشمکش میں ہے کہ دل کا انجان سا درد اس کے لیے عطا ہے یا سزا، اسے سینے سے لگائے یا اپنے وجود سے نوچ پھینکے، یہ دنیا وہ تماشا گاہ۔
Leave a Reply