تازہ ترین / Latest
  Thursday, December 26th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ایک یادگار محفلِ شعر و ادب

Events - تقریبات , Snippets , / Monday, May 13th, 2024

گُزشتہ ہفتے کوالالمپور میں ہماری ادبی تنظیم” رنگِ ریختہ” کی قدر و منزلت اِس لحاظ سے دو چند ہو گئی کہ شعر و ادب اور صحافت سے وابستہ تین نابغہء روزگار شخصیات ایک ساتھ ہمارے درمیان موجود تھیں۔۔کینیڈا سے پاکستانی نژاد اشفاق حُسین صاحب اپنی اہلیہ مُحترمہ نرجس زیدی صاحبہ کے ہمراہ،اِنڈین کشمیر سے پروفیسر حمید اللہ مرازی صاحب اور مُلتان پاکستان سے پروفیسر ڈاکٹر مقبول حُسین گیلانی صاحب۔
یہ تینوں حضرات اپنے اپنے شعبے میں ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اشفاق حُسین صاحب میدانِ نظم و نثر کے شہسوار ہیں۔فیض احمد فیض،احمد فراز اور حبیب جالب کی شخصیّت و فن پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اُن کے تحریری اعجاز کا سفر 1977 میں شائع ہونے والی کتاب” فیض ایک جائزہ” سے شروع ہو کر تا حال جاری و ساری ہے۔اِس دوران اُن کی اٹھارہ کتابیں منصہء شہود پر آ چُکی ہیں۔اور صحافت میں اُن کے قد کاٹھ کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اُنہیں برِصغیر کی فلم انڈسٹری کے عظیم ترین اداکار اور اِنسان دلیپ کمار کا اِنٹرویو کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہُوا۔
پروفیسر حمید اللہ مرازی صاحب کی بُنیادی پہچان تو ایک ماہرِتدریس کی ہے تاہم شاعری اور نثر نویسی میں اُن کا مقام ایک اُستاد سے بھی بلند تر ہے۔فلسفہ اور دینِ اسلام پر دو درجن کے قریب کُتب اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔اِن دِنوں انٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی،ملائیشیا نے اُنہیں یہاں لیکچرز کے لیے بطور خاص مدعو کر رکھا ہے۔مرازی صاحب خوبصورت آدمی ہیں۔بقول اُن کے ایامِ جوانی میں اُنہیں اداکاری کا شوق بھی چُرایا جِس کی تکمیل کے لیے اُنہوں نے کُچھ وقت ممبئی میں گُزارا۔تاہم قُدرت نے اُنہیں اُس سے ایک بہتر کام یعنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جانب راغب کر دیا اور پھر
عُمر گُزری ہے اِسی دشت کی سیاحی میں
پروفیسر ڈاکٹر مقبول حُسین گیلانی صاحب کا تعلق شہرِ اولیا مُلتان سے ہے اور وہ سِول سروس میں میرے رفیقِ کار جنابِ رمضان شاہ گیلانی کے برادرِ خورد ہیں۔وہ بڑے بڑے مفکّروں اور دانشوروں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ماشااللہ چار مضامین میں ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں،ایل ایل بی کیا ہُوا ہے اور ایک مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈِگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔اُن کی ڈاکٹریٹ کا مقالہ” قُرآنِ کریم کے سرائیکی تراجم کا تقابلی جائزہ” جیسے اہم موضوع پر تھا۔اُنہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جِس ایمرسن کالج،مُلتان سے گریجویشن کی ، بعد میں وہاں بطور پروفیسر پڑھاتے بھی رہے۔حال ہی میں صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے 20 گریڈ میں بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے ہیں۔اُنہیں بھی اِنٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی،ملائیشیا نے یہاں ایک تقریب میں مدعو کر رکھا تھا۔بطور محقّق و تنقید نگار سات کتابوں کے مصنّف ہیں۔گیلانی صاحب ایک ہمہ صفت موصوف شخص ہیں۔بقول اُن کے وہ گُزشتہ چار عشروں سے ریڈیو پاکستان سے بطور صداکار مُنسلک ہیں اور پی ٹی وی پر 35 برس سے مُختلف قِسم کے پروگرام کر رہے ہیں۔”مُلتان آرٹس فورم” اور “بزمِ ندیم” جیسی مُلتان کی ادبی تنظیموں کے فعال اور سر گرم رُکن ہیں۔ایک صاحبِ طرز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین گُلوکاربھی ہیں۔اِس عُمر میں بھی جب ہم نے اُن کی آواز میں فیض احمد فیض کی غزلیں اور احمد راہی کےُلکھے پنجابی گیت سُنے تو احساس ہُوا کہ اُنہوں نے اگر اپنی اِس خُداداد صلاحیّت کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی ہوتی تو خاکِ مُلتان سے شُہرت یافتہ ثُریّا مُلتانیکر اور ناہید اختر کی طرح نامور ہوتے۔
ایسی شخصیات کے علم و فن سے استفادہ نہ کرنا یقیناً کُفرانِ نعمت کے زمرے میں آتا۔گو کہ اِنٹرنیشنل اِسلامک یونیورسٹی کی جانب سے عید مِلن پارٹی میں مُشاعرے کا element شامل کرکے اِن مہمانانِ خصوصی کے اظہارِ خیال اور شاعری سے مُستفید ہونے کا اہتمام تھا تاہم اُنہیں زیادہ قریب سے دیکھنے اور سُننے کے لیے “رنگِ ریختہ “ تنظیم کے بانی مُبانی پروفیسر ڈاکٹر ممتاز علی نے اُنہیں اپنی قیام گاہ پر رات کی کھانے کی دعوت دے کر کُچھ ادب شناس دوستوں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ درج بالا خاص مہمانوں کے علاوہ میزبان کی زوجہ مُحترمہ شاعرہ اور ادیبہ ڈاکٹرزینت کوثر،اُن کے شاعر و ماہرِ تدریس بیٹے روئیس ممتاز،ملائیشیا کی معروف کاروباری و ادبی شخصیّت جنابِ محمد اِقبال، وہاڑی پاکستان سے تعلق رکھنے والے صاحبِ طرز شاعر عاطر عُثمانی،پاکستان سے پی ڈی ایچ کے لیے یہاں آنے والی صائمہ علی،اِنڈین کشمیر سے پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ حبیب بلال، بنگلہ دیش سے محقق و ماہرِ تعلیم مُحترمہ عِفّت ماجد اور یہ خاکسار شامل تھے۔
مقررہ وقت رات آٹھ بجے تک پہنچ کر سبھی مدعوئین اورمیزبان اہلِ خانہ نے سب سے پہلے کھانے پر ہاتھ صاف کیے اور ایسے کیے کہ بس مزہ ہی آ گیا۔بھارت سے تعلق رکھنے والے ملائیشین حکومت سے ایوارڈ یافتہ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز علی کےگھر میں تیار کردہ ڈنر میں چکن،مٹن،بیف اور فِش کی مُختلف ڈشز کے علاوہ دال، سبزی، مشروبِ مشرق اور کھیر جیسی روایتی سویٹ ڈش بھی اپنی اہمیت منوائے ہوئے تھی ۔۔اور حاصلِ ڈشز تھی حیدرآبادی بِریانی جِسے کھا کھا کر ہر مہمان کا پیٹ تو بھر گیا مگر نیّت نہیں بھری۔اور مجھے پہلی بار سمجھ آئی کہ حیدر آباد (اِنڈیا) میں ہونے والے کِسی کرکٹ میچ میں کمنٹیٹیرز کرکٹ سے زیادہ وہاں کی بریانی کیوں ڈسکس کر رہے ہوتے ہیں۔گویا یہ دعوتِ شیراز نہیں،دعوتِ ممتاز تھی۔
لذتِ کام و دہن سے فارغ ہو کر حاضرین کے مابین تبادلہء خیالات اور شعر و ادب کی ایک یادگار محفل جمی۔جِس میں ہر کِسی نے حسبِ استطاعت و توفیق خوب خوب حِصّہ ڈالا۔حمید اللہ مرازی ،عاطر عُثمانی،مقبول حُسین گیلانی اور ڈاکٹر زینت کوثر نے اپنی غزلوں اور قطعات سے جبکہ اشفاق حُسین اور روئیس ممتاز نے خوبصورت نظموں سے محفل کو گرمایااور جب پروفیسر ڈاکٹر مقبول حُسین گیلانی صاحب نے اپنی دِلکش آواز میں فیض احمد فیض کی معروف غزل ۔۔مُجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔گا کر سُنائی تو محفل میں ایک سماں سا بندھ گیا۔آخر میں ابر و باراں سے بھیگتی اِس دِلفریب رات میں اشفاق حُسین صاحب نے اپنی لاجواب نظم “زُومنگ” سُنا کر میلہ لُوٹ لیا۔

دیکھوں جو آسماں سے تو اِتنی بڑی زمیں
اِتنی بڑی زمین پہ چھوٹا سا ایک شہر
چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال
سڑکوں کے جال میں چھُپی ویران سی گلی
ویراں گلی کے موڑ پہ تنہا سا اِک شجر
تنہا شجر کے سائے میں چھوٹا سا اِک مکاں
چھوٹے سے اِک مکان میں کچی زمیں کا صِحن
کچی زمیں کے صِحن میں کھِلتا ہُوا گُلاب
کھِلتے ہوئے گُلاب میں مہکا ہُوا بدن
مہکے ہوُئے بدن میں سمندر سا ایک دِل
اُس دِل کی وُسعتوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں
یوں ہے کہ اِس زمیں سے بڑا ہو گیا ہوں میں

رپورٹ؛- رنگِ ریختہ،کوالا لمپور،ملائیشیا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International