سائیکالوجسٹ علیزہ یعقوب
روح کے بغیر جیسے جسم مردہ ہے اسی طرح ذہن کے بغیر انسان مردہ ہے۔بشر کیلۓ جتنی جسمانی صحت ضروری ہے اتنی ہی ذہنی صحت بھی ضروری ہے۔ آج کا نوجوان جسمانی صحت کیلۓ مختلف ڈاکٹرز کے پاس وزٹ کرتا ہے لیکن ذہنی صحت کو اہم نہیں سمجھتا۔پہلے پہل تو اگنور کرتا ہے اور پھر کسی نیم حکیم یا سائیں بابا کا انتخاب کرتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے ہم ذہنی صحت کو اہم کیوں نہیں سمجھتے؟ہمارے معاشرے میں جو بیمار ہو کر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اس سے ہمدردی کی جاتی ہے لیکن جو ذہنی صحت کیلۓ ماہرنفسیات کے پاس جاتا ہے اسے پاگل کا لقب کیوں دیا جاتا ہے؟بہت سے نوجوان اس سٹگما سے بچنے کیلۓ خود کو گھر کی چار دیواری میں چھپالیتے ہیں ،اپنا علاج نہیں کرواتے۔حالانکہ ذہنی صحت کا دارومدار جسمانی صحت پر ہے جتنا انسان ذہنی پرسکون ہوگا اتنا وہ خود کو ایکٹو رکھے گا ،اچھی خوراک لے گا،پرسکون ہوگا اور خدمت خلق میں خود کو صرف کرے گا۔جبکہ اسکے برعکس ذہنی بیمار انسان بےڈھنگی خوراک کھا کر دیگر مسائل کا شکار ہوتا ہے اور کسی کی مدد کی بجاۓ خود مددگار کا منتظر ہوتا ہے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے آج کل کا نوجوان ذہنی مسائل کا زیادہ شکار کیوں ہورہا ہے؟اس کے پیچھے وجہ ہے سوشل میڈیا کا منفی، بے جا استعمال اور اردگرد کا ماحول۔اگر انسان کی صحبت مثبت نہیں ہوگی تو اس میں آگے بڑھنے کی تحریک ختم ہوجاۓ گی وہ ہر وقت اپنے ذہن میں دوسرے لوگوں کے خلاف پروپیگنڈا کرکے کند ذہن بن جاۓ گا۔جیسے ٹھہرا ہوا پانی بدبودار ہوتا ہے ویسے ہی کند منفی سوچ کے انسان معاشرے میں بوجھ ہوتے ہیں۔اس کیلۓ ضروری ہے کہ بنی نوع انسان سوشل میڈیا کا متوازن استعمال کرے ،اچھی خوراک لے،خود کو مثبت لوگوں کے گرد رکھے تاکہ پرسکون کامیاب زندگی گزار سکے۔
Leave a Reply