از قلم ماریہ شعبان
انسان کی تخلیق سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا ہے ۔اسے عظمت و جلالت اور بزرگی کا محور ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا بنیادی جزو بھی قرار دیاگیاہے ۔قدرت نے جس طرح انسان کی بعثت کو خاص کر دیا ہے۔ ویسے ہی اسے دو انمول خزانے بھی تفویض کیے ہیں جن میں ایک دماغ ہے ،جسے عقل و شعور اور دانائی کا ماخذ بنایا ہے اور دوسرا دل ہے جسے محبت ،امن اور خلوص کا ضامن بنایا گیا ہے ۔اب اگر انسان ان خزینوں کا درست استعمال کرتا ہے تو بلندی و عظمت کا حق دار ٹھہرتا ہے ۔جس طرح انسان کی سرشت میں ضد ہے اسی طرح انسان کے دل و دماغ ہمیشہ تضاد میں رہے ہیں ۔ایک ہی جسم میں رہنے کے باوجود انسان کا دل او ر دماغ کبھی ایک جیسا نہیں سوچ سکتے ۔اگر دل احساس اور ہمدردی کی بنا پر بے غرض ہو کر کوئی فیصلہ کر بھی لے تو دماغ مفاد اور خود غرضی کی بنا پر اکثر غلط فیصلہ کر لیتا ہے ۔بعثت انسان کا مقصد تو بہت خاص تھا لیکن فطرت انسان نے خود کو بے ہیچ کر دیا ۔زندگی میں دل و دماغ کی نہج پر سوچنے کی بجائے اسلام کے احکام کو اپنے لیے مختصص کریں ۔چاہے آپ کے دل و دماغ قبول کریں یا نہیں ۔تضاد کی بجائے تفاوت سے کام لے کر دین کو اپنایا جائے تو دنیا اور آخرت دونوں سنور سکتے ہیں ۔ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین
Leave a Reply