پروفیسر عظمت ہما
ادب کی دنیا میں مرزا غالب کو ایک مشکل پسند شاعر سمجھا جاتا ہے ۔ساری دنیا ان کی شاعری کا اعتراف کرتی ہے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے شعر کی تہ تک کوئی بمشکل ہی پہنچ سکتا ہے لیکن شعر سنتے ہی ہر کوئی سردھنتا ہے۔ بے اختیار دل سے واہ واہ کے الفاظ نکل جاتے ہیں اور ایک روحانی سکون میں اپنے اپ کو لپٹا ہوا محسوس کرتا ہے ۔غالب اگر اپنے اپ کو تصوراتی اور پرستانی جہان میں محصور سمجھتا ہے لیکن جب بھی پرستانی جہان سے نکلتے ہی دنیا کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرتا ہے تو پھر اس طرح کا شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یہ گردش مدام شاید وہ مالی پریشانیاں اور تکالیف ہیں جس کی طرف غالب نے اپنے خطوط میں اشارہ کیا ہے انہوں نے اگر اپنی زندگی میں پیش انے والے واقعات کی بدولت اپنی خودداری ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جیسے کہ دہلی کالج میں ایک مدرس کی حیثیت سے ملازمت کرنے سے انکار صرف اس وجہ سے کہ دہلی کالج کے سربراہ نے مجھے عزت نہیں بخشی اور میرے استقبال کرنے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت نہیں کی ۔اس کے ساتھ بات کیے بغیر کالج کے دروازے ہی سے لوٹ ایا ۔اس طرح انہوں نے اپنی خودداری کا اظہار اپنے ان اشعار میں بھی کیا ہے
بندگی میں بھی وہ ازادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر ائے در کعبہ اگروا نہ ہوا
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
لیکن جب بھی دنیا کے دکھ شراب میں ڈبونے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر قرض کی شراب لینے سے بھی عار محسوس نہیں کرتے
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اور انہوں نے چاہا تھا کہ یہ سارے ادھار وہ پینشن کی رقم سے چکا دیں گے جو ان کو ایک مدت سے ساڑھے سات سو روپے سالانہ ملنے کے علاوہ پنشن کی باقی رقم 54 سالوں سے کبھی نہیں دیے گئے ۔پنشن کی یہ باقی رقم وہ 7 ہزار روپے تھے جو١٨٠٦ میں غالب کے چچا نصر اللہ خان بیگ کے مرنے کے بعد ان کے پسماندگان زیادہ مستحق تھے جس میں نصر اللہ بیگ کے خواہر نسبتی نواب احمد بخش نےدس ہزار روپے نصر اللہ خان بیگ رسالے کا ایک افسر خواجہ حاجی جس کا غالب کے خاندان سے کوئی نسبی تعلق نہ تھا کے لیے مقرر کیے تھے اور پانچ ہزار روپے کا حقدار شاید اپنے اپ کو اس لیے سمجھتے تھے کہ انہوں نے اپنے خواہر نسبتی کی والدہ بہنوئی بھتیجوں اور بھتیجی کے غور و پرداخت کا بوجھ خود اپنے سر لیا تھا اور اس زمانے میں غالب کے گھرانے میں ایسا کوئی بڑا نہیں تھا کہ نواب صاحب سے یتیموں کو ان کا حق دینے کی بات کرتا اور نہ غالب خود رشتہ داری کی وجہ سے (نواب الہی بخش کی بھتیجی الہی بخش معروف کی بیٹی امراؤ بیگم غالب کی بیوی تھی ) ان سے اپنے چچا کی پوری پنشن لینے کے بارے میں پوچھنے کی جرات کر سکتا تھا ۔جب نواب احمد بخش نے لوہارو اور فیروز پور جھرکا کی ساری جائیداد اپنے بیٹوں میں تقسیم کی اور ریاست کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوئے تو پھر غالب خود پنشن کے تنازعہ کا حل چاہتے تھے ۔اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ۱۸۲۷ میں کلکتہ کا سفر کیا ۔غالب نے سرکار انگلشیہ کے حضور درخواست پیش کی جس میں انہوں نے یہ مطالبہ کیا
۱) 10 ہزار روپے کی جو رقم ابتدا میں مقرر ہوئی تھی اسے بحال کیا جائے
۲) خواجہ حاجی کو مرزا نصر اللہ بیگ خان کے پسماندوں میں شامل کر کے دس ہزار روپیہ سالانہ دینے کی کوئی وجہ نہ تھی یہ رقم نیز پانچ ہزار سالانہ کی گھٹائی ہوئی رقم سے یک مشت ادا کی جائے .
۳) ائندہ کے لیے پنشن کو فیروزپور جھرکا کی ریاست سے متعلق نک رکھا جائے بلکہ سرکار انگلشیہ کے خزانے سے متعلق کر دیا جائے
غالب کی بد نصیبی کہ ان کی یہ درخواست منظور نہیں ہوئی اور غالب نا امید ہو کر اپنے وطن واپس لوٹے غالب نے اپنی ادھی زندگی پنشن کی بحالی کی کوششوں میں بسر کی تھی اور کلکتہ سے ناکام لوٹ کر بھی ان کی کوششیں جاری تھیں ۔شاید ان کی کوششوں کا مثبت نتیجہ نکل أتا کہ اچانک میرٹھ کی چھاونی میں موجود سپاہیوں کی بغاوت کے نتیجے میں ۱۱مئ ۱۸۵۷ سے ۱۸ ستمبر ۱۸۵۷ ایک طویل جنگ چھڑ گئی جو انہیں اس جنگ کی وجہ سے غالب کے پنشن کی بحالی کے سلسلے میں امیدوں کے ستارے ایک بار پھر ماند پڑ گئے اور غالب کے خیال میں اس کی وجہ جنگ سے کئی سال پہلے قلعہ معلی میں خاندان تیموریہ کی تاریخ لکھنے کی ذمہ داری لینی تھی ۔غالب اپنے ایک شعر میں خود اپنے اپ کو مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا وظیفہ خوار تسلیم کرتا ہے ۔
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے جو کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
دربار عالیہ میں حاضری دینا بہادر شاہ ظفر کو تین فرشی سلام کرنا اور ان کی تعریفیں کرنا یہ سب کچھ درباری ملازمت کی وجہ سے غالب کی مجبوری تھی تو اس کے ساتھ ایک بہترین اور نامور شاعر کے سبب سے بہادر شاہ ظفر کے دل میں غالب کے لیے عزت اور احترام کا جذبہ موجود تھا اس لیے تو بادشاہ موصوف نے بڑے احترام اور عزت کے ساتھ انہیں نجم الدولہ دبیرالملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے تھے اور ابراہیم ذوق کی وفات کے بعد شاعری میں ان سے اصلاح بھی لیتے تھے ۔ قلعہ معلی میں غالب اپنے احترام اور عزت کے اعتراف میں خود لکھتے ہیں
اے شہنشاہ اسماں اور رنگ
اے جہاں دار افتاب اثار
تھا میں ایک درد مند سینہ فگار
تم نے مجھ کو جو ابرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئ بازار
کہ ہوا مجھ سا بندۀ ناچیز
روشناس ثوابت و سیار
اس کے علاوہ قصیدوں اور خطوط میں بہادر شاہ ظفر کی مدح کہنا اور دوسری اہم بات کہ بادشاہ کی تعریف میں یہ سکہ کہنے کی وجہ سے
بہ زر زد سکۀ کشور ستائی
سراج الدین بہادر شاہ ثانی
انگریز سرکار کو یہ پختہ یقین ہو چکا تھا کے غالب کی ساری ہمدردیاں بادشاہ ظفر کے ساتھ ہیں جو ۱۸۵۷ کے ہنگامے کا ذمہ دار اور باغیوں کا رئیس تھا ۔انگریز سرکار سے بغاوت کی وجہ سے غالب کے بقول ملازمین قلعہ شدید پریشانی میں تھے ۔ان ملازموں میں غالب بھی شامل تھے اس لیے وہ اس بات کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے کہ انگریز سرکار ان کی پنشن بحالی کی درخواست پر غور کرے اور سرکار انگلشیہ کی طرف سے وہ عزت و افتخار اور خطابات دیے جائیں جو انہیں ۱۸۵۷ کی جنگ کے بعد دئیے گئے تھے انگریزوں کی کامیابی کے بعد غالب کی الجھنوں میں مزید اضافہ کیا تھا ۔غالب دہلی کے سفید پوش لوگوں میں اس لیے خوش قسمت تھے جو قلعہ معلی میں ملازمت کرنے اور بہادر شاہ ظفر کے مداحوں میں شامل ہونے کے باوجود مہاراجہ پٹیالہ کی وجہ سے اسی قسم کی اذیت نہیں پہنچائی گئی اور دہلی شہر سے نکالا گیا ۔حالانکہ دہلی کے شریف بزرگوں اور غالب کے ساتھیوں میں نواب مصطفی خان شیفتہ کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی صدرالدین ازردہ جو دہلی کا صدر صدور تھا دہلی سے نکالا گیا ۔حکیم رضی الدین کو بے دردی سے مارا گیا تھا ۔اور کئی لوگوں کو پھانسی کا حکم سنایا گیا تھا ۔اس سے مشکل حالات میں غالب کا مصلحت سے کام لینا ایک ایسے انسان کی حیثیت سے ضروری تھا کہ جس نے ساری زندگی اپنے اباؤ اجداد کے پیشے پر فخر کیا ہو ۔اپنے نام سے پہلے میرزا نواب اور بہادر لکھنے کو فوقیت دیتا ہو کوئی ڈھنگ کا روزگار نہ ہونے کے باوجود نوابوں جیسی زندگی بسر کرتا ہو ۔چھوٹے مکانات کے بجائے حویلیوں میں رہنے کو ترجیح دیتا ہو اور ایک کے بجائے گھر میں تین نوکر رکھنا پسند کرتا ہو ۔ایسی عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے ضرور ایک بڑی رقم کی ضرورت پیش اتی ہے ۔اس بڑی رقم کو بحال کرنے کے لیے غالب نے دو سال کلکتہ میں گزارے تھے ۔پنشن کی بحالی تو دور کی بات تھی وہ 750 روپے سالانہ بھی جنگ کے بعد تین سال سے بند پڑے تھے ۔ان دنوں غالب کی مالی حیثیت اچھی نہیں تھی حالانکہ جنگ سے پہلے خاندان تیموریہ لکھنے کی ذمہ داری کے ساتھ غالب کی مالی حیثیت بہتر ہو چکی تھی ۔پنشن سے 750 روپے سالانہ بہادر شاہ ظفر سے 600 روپے سالانہ ولی عہد کی شاعری کے اصلاح پر 400 روپے سالانہ اور چند نوابوں کی طرف سے وظیفہ بھی باقاعدگی سے مل رہا تھا ۔اس رقم سے غالب بہتر زندگی بسر کر رہا تھا لیکن وہ جو ایک ذہین اور ملک کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے انسان تھے ایسے سمجھدار انسان کو وظیفوں اور قلعہ کی ملازمت پر کوئی اعتبار نہیں تھا ۔ملک میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے مرزا غالب کو اپنی باقی زندگی ارام کے ساتھ بسر کرنے اور ایک محفوظ روشن مستقبل کی فکر دامن گیر تھی ۔ملک کی سیاسی حالات میں انگریزوں کی بےجا مداخلت اور اہستہ اہستہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے سے غالب کو معلوم ہو گیا تھا کہ اب مغلوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو ہے تو غالب کے دل میں یہ ارزو انگڑائی لینے لگی کہ میں اپنی نسبی اور عملی حیثیت انگریز سرکار کے سامنے اشکار کروں کیونکہ ان کے نوابی شان کا تقاضا تھا کہ انہیں سرکار انگلشیہ سے خطاب خلعت اور پنشن عطا کیا جائے اس کے لیے غالب نے ملکہ وکٹوریہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا اور لندن بھیجا ۔غالب کو اس کا جواب بھی ۱۸۵۷ کے اغاز میں مل چکا تھا ۔ظاہری بات ہے کہ غالب نے قصیدے کے جواب میں لندن سے ملنے والی اطلاع کی وصولی پر ضرور خوشی کا اظہار کیا ہوگا اور اس بات میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہ سکتی تھی کہ ان کی دلی تمنائیں یعنی خطاب خلعت پنشن پوری ہو جاتی لیکن بدقسمتی سے ۱۱ مئی انگریز سرکار کے خلاف ہونے والی بغاوت اگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی اور غالب کے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے سرکار انگلشیہ کی نظر میں غالب نے اپنے اپ کو خیر خواہ ثابت کرنے اور اور اپنی خواہشات کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ۱۱ مئ ۱۸۵۸ تک غالب نے جنگ کے حالات واقعات اور اپنے مشاہدات فارسی زبان میں کتابی شکل میں دستنبو کے نام سے لکھے جس میں انگریز سرکار کے ساتھ ہمدردی اور باغیوں کی طرف سے ان پر اچانک حملہ ایسے ہمدردانہ انداز میں بیان کیا کہ جس سے انگریزوں کی معصومیت اور مظلومیت جھلکتی ہے اور اپنے وطن سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے میرٹھ چھاونی میں مقیم سپائںوں نے ناجائز اور گھٹیا حرکت کی ہو ۔یہ غالب کی مصلحت پسند طبیعت کا تقاضا تھا کہ ان سے جس طرح ہو سکے اپنے اپ کو انگریز سرکار کی نظر میں انگریزوں کا ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرے اس کتاب کے لکھنے اور انگریز سرکار کی خدمت میں پیش کرنے سے غالب کی وہ مدعا مقصد اور خواہش پوری ہوئی اور معتبر شاعر کے ساتھ ساتھ فارسی نثر نگاروں کی صف میں اپنے اپ کو کھڑا کیا ۔مئ۱۸۶۰ میں غالب کی پنشن بحال کر دی گئی تین سال سے رکی ہوئی رقم کا اجرا کیا گیا اور تین سال بعد درباری خلعت بھی بحال کر دی گئی ۔پنشن اور خلعت کی بحالی اگر ایک طرف غالب کی مصلحت پسند مزاج کی کامیابی سمجھی جائے تو دوسری طرف انیسویں صدی کا ایک بڑا معتبر شاعر اور دستنبو کے نثر نگار کا کمال ہے کہ سرکار انگلشیہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہوئے ۔
Leave a Reply