تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

معصوم، مظلوم اور محکوم نوال

Articles , Snippets , / Tuesday, May 28th, 2024

زندگی اچھی بھلی اپنی ڈگر پہ ہنستے گاتے، روتے مسکراتے رواں دواں ہوتی ہے اچانک کوی ایسا خطرناک موڑ آ جاتا ہے جہاں اس شدت سے دھکا لگتا ہے کہ جسم کا انگ انگ ہی ہل جاتا ہے. آج کا دن بھی میرے لیے ایسا ہی تھا صبح اپنی روٹین پہ علی الصبح آٹھ کے نماز فجر ادا کرنے کے بعد واک اور ایکسر سایز سے فراغت پا کے تیاری، اور ناشتے کے بعد میں فٹا فٹ کلینک کی تیاری. مجھے جلد ہی کلینک جانا ہوتا تھا کیونکہ میرے گھر اور کلینک میں ایک لمبا فاصلہ تھا جسے طے کرنے میں بھی کم از کم ایک گھنٹہ تو روزانہ لگ ہی جاتا تھا. ابھی میں سیٹ پہ آ کے بیٹھی ہی تھی کہ ایک پچاس سالہ عورت دو لڑکیوں کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوی. ایک بچی جس کا نام نوال تھا تقریباً پندرہ برس کی تھی اور دوسری لڑکی تقریباً بایس برس کی تھی. بایس سالہ لڑکی رو رہی تھی، پچاس سالہ عورت میری مریضہ تھی اس نے جو کہانی مجھے سنای وہ سن کے مجھے بنت حوا کی بد نصیبی پہ شدید بے بسی محسوس ہوی اور اپنی کم ماییگی کا احساس بھی. میرا ان تمام لبرل، فیمنسٹ بواے کٹ بال کروا کے اور دوپٹوں کے بغیر یا دوپٹے گلوں میں لہراتی ہوی عورتوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ارے بی بیو عورت تو ابھی سانس لینے کے لیے بھی اس تعفن زدہ معاشرےکے مردوں اور مردوں سے بڑھ کر عورتوں کی گردنوں پہ بیٹھی ہوی عورتوں کی محتاج ہے اور تم نجانے کن چکروں میں پڑ کے خواہ مخواہ کے چکر کھاتی ہوی بل کھاتی ہوی لہراتی ہوی الف کو یے بناتی ہوی اللہ جانے کن چکروں میں گم ہو راہ راست سے بھٹک چکی ہو اور نجانے کیا کیا گل کھلا چکی ہو. میں ایسی تمام خواتین کو آدھا تیر اور آدھا بیٹیر کہتی ہوں.
اور یہ برگر آنٹیاں گرمیوں میں اے سی اور یخ بستہ سردیوں میں ہیٹر کے آگے بیٹھ کے حقوق نسواں کی ترجمان ہی نہیں بنی پھرتی بلکہ ایک فیمنسٹ عورتوں کا جتھا ہے جو ہمہ وقت ان مادر پدر آزاد پڑھی لکھی خواتین کی تعریفیں کر کر کے خواہ مخواہ ہی الٹا سیدھا ہوتا ریتا ہے اور یہ برگر آنٹیاں خوش کہ بڑے بڑے کام انتہائی آرام دہ ماحول میں گھر بیٹھے ہی انجام دییے جا رہے ہیں. سچ تو یہی ہے کہ عورت کی پس ماندگی، مظلومیت اور محکومیت آج بھی پوری دنیا کی تمام ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ اقوام کے سامنے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے.
اور میں صرف یہی کہہ کے اپنے اندر کی روتی بلکتی اور سسکتی ہوی پونم کو تسلی دینا کافی سمجھتی ہوں کہ
اے حوا کی بیٹی
نصیبوں میں تیرے
کیوں دھکوں پہ دھکے
کیوں ٹھوکر پہ ٹھوکر
سدا تیری بولی لگای گءی
سدا ہی تو پیاری رلای گءی
بخت میں تو تیرے جدائی رہی
تو ایسے سدا ہی ستای گءی
نہ اپنی رہی نہ پرای رہی
تو صبح کے وقت کلینک میں داخل ہونے والی ان تین خواتین کی روداد کچھ یوں تھی کہ سب سے کم عمر لڑکی نوال جب تقریباً دو سال کی تھی تو اس کا باپ ایک روڈایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار گیا خاندان والوں نے نوال کی والدہ کی شادی خاندان کے ایک نسبتاً امیر اور بڑی عمر کے شخص سے کر دی اس بڑی عمر کے شخص نے کم عمر بیوہ کو بیوی تو بنا لیا مگر اس کی دو سالہ بچی کی ذمہ داری اٹھانے سے صاف ا نکار کر دیا ذرا غور فر مایے گا ایک دو سال کی شیر خوار بچی سے اس کی ماں کو چھین لینے سے بڑا کوی اور ظلم ہو سکتا ہے بھلا. خیر بچی دھکے کھاتی کھاتی آپا سلطنت آرا کے پاس آ پہنچی جن کی دو بیٹیاں تھیں بڑی بیٹی کسی سرکاری سکول میں اٹھارہویں گریڈ کی پوسٹ پہ تھی تین بچوں کی ماں اور انتہائی غیر ذمہ دار. دوسری عالمہ فاضلہ کا کورس کر رہی تھی اور سلطنت آرا نے اس یتیم بچی نوال کے سر پہ دست شفقت رکھ چھوڑا تھا نوال دسویں جماعت میں تھی کہ ایک دن اچانک بڑی بیٹی کے اکلوتے بیٹے نے کوک کا ڈھکن گلے میں پھنسا لیا بڑے مشکل طریقہ علاج سے بچے کو تو بچا لیا گیا مگر بچے کی نانی نے نوال کو بڑی بیٹی کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مستقل طور پر بڑی بیٹی کے پاس بھیج دیا سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا نوال بڑی بھولی بھالی اور معصوم سی بچی تھی جو بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان
کی تعلیم و تربیت میں بھی مکمّل طور پہ حصہ ڈال رہی تھی پر وہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مشہور زمانہ قول ہے ۔کہ جس پہ نیکی کرو اس کے شر سے ڈرو تو یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوانوال پہ اس کی آپا نے اپنے شوہر کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر اسے اور اپنے خاوند کو پوری دنیا کے سامنے تماشا بنا کے رکھ دیا. فارماسسٹ خاوند نے قرآن پہ ہاتھ رکھ کے نوال کی شرافت کے بیانات دیے مگر بیگم صاحبہ کی ہٹ دھرمی نے نوال اور اس کی والدہ اور بہن کو میرے کلینک آنے پہ مجبور کیا کہ کیا نوال واقعی ہی میں کنواری ہے اور جب میں نے معاینے کے بعد کاغذ پہ لکھ کے نوال کی پاکدامنی. کی باقاعدہ تص دیق کر دی اور لواحقین کو اس احمق بڑی بہن کے نفسیاتی علا ج معالجے کا مشورہ دیا تو خاندان کی عورتوں کی جان من جان آی. غور کیجیے بلکہ نوال کی جگہ خود کو رکھ کے دیکھیے گا کہ آپ اپنی پڑھائی چھوڑ کر اپنی بہن کے بچوں کے پالن پوسن کا اجر کیسے بھیانک طریقے سے و صول کرتے ہیں .
ایسی ہی ایک لڑکی تھی شکیلہ فیرٗ وزہ ہاشمی جو ماں کی فوتگی کے بعد سوتیلی ماں کے سلو ک سے بچنے کے لیے بیاہتا بہن کے سہارے کی تلاش میں اپنے ہی بہنوئی کی جنسی درندگی کا نشانہ بن کے جان کی بازی ہار گءی تھی خدارا اپنے ارد گرد نگاہ دوڑا کے دیکھے گا کہ کتنی ہی
معصوم
مظلوم
اور
محکوم
نوالیں. اپنی بہنوں کے بچے سمبھالنے گییں یا تو کردار پہ تہمت لگوا آءیں یا پھر جان کی بازی ہار آءیں. خدارا اپنی بچیوں کو اپنی بیاہی ہوی بیٹیوں، ماسیوں،پھوپھیوں کے چھلے کی کٹھنا یوں میں مددگار کے طور پہ مت بھیجیں. اللہ آپ اور ہم سب کی بیٹیوں کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International