تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

امریکہ میں میرا تیسرا دن

International - بین الاقوامی , Snippets , / Sunday, June 30th, 2024

لسلام علیکم۔۔۔امریکہ میں میرا تیسرا دن تھا ۔میں اورمیرے میزبان عمرفاروق بھٹی بوسٹن سے دودن کے لئے نیویارک آئے ہیں ۔گزشتہ رات ہم تھک ہار کر سوگئے تھے اور میں تو صبح اُٹھا تو فریش تھا لیکن بھٹی صاحب کی تھکاوٹ ابھی مکمل پراتری نہیں تھی میں نے محسوس کیا کہ انھیں کچھ دیر اورسونا چاہیے لہٰذا میں نے اکیلے ہی نیویارک شہر دیکھنے کا قصد کر لیا ۔ہوٹل سے باہرآکرٹائمز اسکوائر سے سیاحتی بس کمپنی کے ایجنٹ سے پینسٹھ ڈالرز کا ٹکٹ خرید کر میں ایک ڈبل ڈیکر سیاحتی بس میں سوار ہو گیا جو کہ تین گھنٹے میں پورے نیویارک کی سیر کرواتی ہے ۔میں نے بس کی اوپری منزل جو کہ بغیر چھت کے تھی پر بیٹھنے کا انتخاب کیا تاکہ نظاروں سے زیادہ سے زیادہ لطف اٹھا سکوں آج دھوپ بہت تیز تھی جسکی وجہ سے گرمی نے شدت اختیار کر رکھی تھی اور بس کی چھت پر تمام سیاح ہی گرمی سے بچنے کے لئے سروں پر ٹوپیاں رکھ رہے تھے اور پانی پی رہے تھے ۔اس سیاحتی بس میں دنیا بھر کے رنگ برنگے سیاح سوار تھے اور نیویارک کو اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے تھے ۔سڑک کے دونوں جانب فلک بوس عمارتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوتی تھیں اور سیاحوں کا ہجوم نظر آرہا تھا جو کھانے پینے اور خریداری میں مصروف تھے بس جگہ جگہ تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے رکتی اور سیاح کچھ دیر کے لئے بس سے اتر کر کچھ کھاتے پیتے اور آگے کی جانب سفر جاری رکھنے کے لیے اسی بس اسٹاپ پر اگلے بس میں سوار ہوجاتے یہ بسیں ہر اسٹاپ سے پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے مل جاتی تھیں خریدا ہوا ٹکٹ رات نو بجے تک کارآمد تھا بس نے جس جگہ اپنایکطرفہ سفر ختم کیا میں نے وہاں سے اترکر مخلف مقامات کی سیر کی اور واپسی کے لئے بس کی بجائے بذریعہ سب وے ٹرین سے کرنے کا ارادہ کیا ۔میں سب وے اسٹیشن پہنچا تو اسٹیشن پر گرمی اور گہماگہمی کا حال دیکھ کر بالکل گمان نہ ہوا کہ یہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کا اسٹیشن ہے ۔نہ صرف اسٹیشن کی حالت خراب تھی بلکہ ٹرین کی حالت بھی خستہ تھی ۔صفائی اور نظم و ضبط کا کوئی خاص بندوبست نہ تھا ۔حکومت جاپان نے اپنے شہریوں کو وہ اسائشات زندگی فراہم کر رکھی ہیں کہ جاپان کا شہری دنیا کے کتنے ہی ترقی یافتہ اور ماڈرن شہر میں کیوں نہ چلاجائے وہ اپنے وہاں کبھی سہل محسوس نہیں کرے گا ۔کیونکہ جاپان کی ترقی اورجدت کا مقابلہ کوئی ملک کم ہی کر پاتا ہے ۔المختصر یہ کہ نیویارک کی یہ سب وے ٹرین جاپان کی ٹرین کے مقابلہ میں پاکستان ریلوے کی بوسیدہ ٹرین جیسی لگی۔ٹھیک بیس منٹ میں ٹائمز اسکوائر کے اسٹیشن پر اتر گیا اور وہازن رونقوں سے محظوظ ہوتا رہا یہاں وائی فائی مفت دستیاب تھا جسکی وجہ سے اپنی میلز اور پیغامات دوستوں سے تبادلہ کرنے میں خاصا وقت گزر گیا
جاپان میں مقیم نعیم حیات اور میرے مشترکہ دوست حافظ شفیق جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے کی کال آئی انہوں نے بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی قاری محمد فاروق بھی نیویارک میں مقیم ہیں میں ان سے ضرور ملاقات کروں ۔میں نے حافظ شفیق کو کہا کہ میں ان کے بھائی سے ضرور ملاقات کروں گا۔شام چھ بجے قاری محمدفاروق صاھب کی کال آئی کہ وہ ہمیں لینے کے لئے ہمارے ہوٹل پہنچ رہے ہیں ۔میں جونہی ہوٹل پہنچا تو عمر بھائی باہر آرہے تھے انھیں بتایا کہ واپس چلیں ایک صاحب ہمیں لینے آرہے ہیں شام آٹھ بجے قاری فاروق ہمیں اپنے ساتھ نیویارک کا منی پاکستان یعنی بروکلین دکھانے لے گئے ۔بروکلین وہ علاقہ ہے جہاں پاکستانی کمیونٹی کی غالب اکثریت آباد ہے اور یہاں کی مارکیٹیں،دوکانیں اور بازار پاکستانی مصنوعات سے بھرے پڑے ہیں ۔یہاں دوکاندار اور زیادہ ترخریدار بھی پاکستانی ہیں ۔یہاں پاکستانی حلال فوڈ ریستوران اور سپرسٹور بھی عام ہیں ۔یہاں گھومتے پھرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم پاکستان کے ہی کسی بڑے شہر میں گھوم رہے ہیں ۔قاری محمد فاروق بہت ہی مسحور کن شخصیت کے مالک ہیں ۔اعلی تعلیم یافتہ ،شاعر اور نعت خواں ہیں ۔ان کا تعلق عالمی اسلامی جماعت تحریک منہاج القرآن سے ہے اور وہ علامہ طاہر القادری کے شاگرد رشید بھی رہ چکے ہیں
خوبصورت اآواز کے مالک ہیں اور راستے میں ہمیں وہ اپنی خوبصورت آواز میں نعتیں بھی سناتے رہے ۔قاری محمد فاروق ایک سماجی شخصیت ہیں جو گزشتہ ستائیس سال سے نیویارک میں مقیم ہیں ان کا نیویارک میں ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہے۔ قاری فاروق ہمیں اپنے ایک پاکستانی دوست اویس بٹ کے ریستورنٹ میں لے گئے جہاں ہماری پاکستانی روایتی کھانوں ،چائے اور مٹھائی سے تواضع کی گئی ۔قاری محمد فاروق نے بروکلین میں ہماری ملاقات چند پولیس افسران سے کروائی اور یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ان نجوان پولیس افسران کا تعلق پاکستان سے ہےان میں سے ایک سینئر ترین افسروحید اخترتھے جن کا تعلق پاکستان کے شہر منڈٰی بہا الدین سے تھا انہوں نے بتایا کہ نیویارک کی پولیس نفری میں تقریبا پانچ سو افراد کا تعلق پاکستان سے ہے جو سارجنٹ سے لے کر کیپٹن تک کے عہدہ پر فائز ہیں ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ خود بائیس سال کی عمر میں امریکہ آئے تھے اور یہاں تعلیم حاصل کر کے پولیس کا محمکہ جوائن کیا ۔وہاں کچھ پولیس افسران آف ڈیوٹی تھے اور وہاں سول لباس میں کھانا کھانے اآئے ہوئے تھے ان سے بھی بات چیت ہوئی ۔ان میں سے ایک تیس سالہ منیب نامی نوجوان سے بھی بات چیت ہوئی اس کا تعلق وہاڑی بورے والا سے تھا اس نے بتایا کہ وہ نوجوانی ہی میں امریکہ آیا اور یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بولیس کے محکمہ سے منسلک ہوگیا اور ایک اور نوجوان نعیم سے بھی بات چیت ہوئی اس کا تعلق نیویارک کی ایک سیکیورٹی فورس سے ہے اسی طرح علی اور صغیر سے بھی بات چیت کر کے اچھا لگا ان سب نوجوانوں نے بتایا کہ وہ نوجوانی ہی میں امریکہ آگئے تھے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور امریکی شہریت حاصل کرنے کے بعد نیویارک کے پولیس کے محکمہ میں بھرتی ہوئے ۔مجھے ان نوجوانوں کی ہمت و استقامت دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی کہ پاکستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے آنے والے نوجوانوں نے امریکہ کی فورسز میں نوکریاں حاصل کیں حالانکہ کسی بھی ملک کی سرکاری فورس میں ملازمت کرنا بہت جرات و بہادری کا کام ہوتا ہے۔
محمد فاروق ہمیں بروکلین میں واقع ڈیڑھ سو سالہ قدیم پل دکھانے لے جا رہے تھے کہ راستےمیں بارش شروع ہوگئی جس کی وجہ سے موسم خوش گوار ہوگیا ۔بارش کہ رم جھم اور قاری فاروق کی مسحور کن نعت خوانی بہت ہی روح پرور سماں تھا ۔بروکلین برج کا خوبصورت طرز تعمیر دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ڈیڑھ سو سال قبل جبکہ دنیا جدید سہولیات سے محروم تھی تو کس طرح ایسا عالیشان پل تعمیر کیا گیا۔پل کے دونوں جانب گاڑیوں کے آنے اور جانے کے لئے ٹریک تھے جبکہ درمیان میں پیدل چلنے والوں کے لئے ٹریک بنایا گیا تھا تاکہ سیاح پیدل چل کر بھی اردگرد کے نظارے کر سکیں ۔
قاری محمد فاروق نے ہمیں نیویارک کی کچھ مشہور و معروف آسٹریا بھی دکھائیں ۔انگریزی ناولوں یا اخبارات میں اکثر ہم نیویارک کی ان اسٹریٹس کے نام پڑھا کرتے تھے ۔نیویارک کے زیادہ تر علاقوں کے نام مختلف اسٹریٹس سے موسوم ہیں جیسے وال اسٹریٹ،بارکلے اسٹریٹ یا 36 اسٹریٹ،37,اسٹریٹ وغیرہ۔ہم نے اپنے میزبان قاری فاروق کے ہمراہ نیویارک کی مشہور وال اسٹریٹ بھی دیکھی جو کہ نیویارک کا معروف معاشی حب ہے۔اس علاقہ میں امریکہ کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں کے دفاتر قائم ہیں۔یہاں ایک چوراہے میں ایک بیل کا مجسمہ نصب ہے جو یہاں کی معاشی طاقت کی علامت ہے۔وال اسٹریٹ دیکھنے کے بعد ہم ایک ایسے بارونق سیاحتی علاقہ میں گئیے جو جاپان کے سیاحتی علاقہ اودائبا سے مشابہت رکھتا ہے یہاں بھی دریا کے کنارے رنگ و نور میں بسی خوبصورت عمارتیں سیاح کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔یہا ں سے نیویارک کے دور دور تک نظارے کیے جاتے ہیں ۔مجسمہ آزادی یہاں سے بھی دکھائی دیتا ہے ۔کل ہم مجسمہ آزادی بھی دیکھنے جائیں گے اور اس کے بعد بوسٹن واپس جائیں گے۔رات گئے قاری فاروق ہمیں ہوٹل تک چھوڑنے آئے اور ہم نے تقریبا چھ گھنٹے انکے ساتھ گزارے تو ہمیں ایسا لگا کہ وہ ہمارے دیرینہ دوست ہیں اللہ تعالیٰ نے انھیں بہت علم سے نوازا ہے انکی مسحور کن گفتگو نے ہمیں انکا گرویدہ کردیا ہے میں حافظ شفیق کا بھی شکرگزار ہوں جنھوں نے اپنے برادر خرد کے توسط سے میرا نیو یارک دورہ مکمل کروانے میں بڑا کردار ادا کیا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International