وہ ایک شخص جو آیا تھا دلکشی بن کر
چلا گیا ہے مری زیست کی کمی بن کر
نفس نفس نظر آتا ہے مسکراتے ہوئے
یہ کون شہر میں آیا ہے تازگی بن کر
عجیب ہوتی ہے پردیس کی رفاقت بھی
کہ لوگ ساتھ بھی رہتے ہیں اجنبی بن کر
بس ایک سجدہ ہے درکار زندگی کے لئے
سکوں ملے گا فقط ہم کو متقی بن کر
میں بھول پایا نہیں اس کے لمس کی حدت
وہ یاد آتا ہے آنکھوں میں اب نمی بن کر
تعلقات نبھانے میں بھی تردد ہے
یہ کیا کہ ملتے ہو اب مجھ کو اجنبی بن کر
اک ایک مصرعہِ تر خوں جلا کے بنتا ہے
پھپھولے دل کے نکلتے ہیں شاعری بن کر
امام کوئی ملے مجھ کو بے غرض شاہد
گزار دوں گا میں ہر لمحہ مقتدی بن کر
ریاض شاہد بحرین
Leave a Reply