از۔۔۔۔احسن امام احسن
نسیم اشک ایک ایسا نام ہے جو ہر ادب پڑھنے والوں کی زبان پر رہتا ہے وجہ یہ ہےکہ ان کا قلم تیزی سے دوڑتا ہے اور ہر علاقے میں دوڑتا ہے چاہے وہ شاعری کی پگڈنڈی ہو یا افسانے کا راستہ یا پھر تنقید کا چوراہا یا ترجمے کی گلی نسیم اشک موجود رہتے ہیں یعنی ہر موضوع پر لکھتے ہیں۔مغربی بنگال ادب کا گہوارہ رہا ہے اور آج بھی ہے اسی مغربی بنگال کی دھرتی سے نسیم اشک ادب کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
نسیم اشک عام فہم اور سادہ زبان کا استعمال اپنے مضمون میں کرتے ہیں۔اپنی شاعری ،اپنے افسانے اور اپنے مضامین میں بڑی خوبصورتی سے وہ بات بھی کہہ گزرتے ہیں جو قاری کو ذہنی ورزش کرنے پر مجبور کرے۔نسیم اشک کے بالیدہ شعور نے ادب کی بستی میں تہلکہ مچا دیا ہے۔مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے نسیم اشک ادب میں اپنا مقام مستحکم کرچکے ہیں تبھی تو اہلِ قلم حضرات ان کی حوصلہ افزائی خوب کرتے ہیں۔
بساطِ فن پر اپنی رائے کا اظہار تسلیم عارف اس طرح کرتے ہیں۔
“نسیم اشک عمدہ اور شگفتہ نثر لکھنے پر قادر ہیں۔ان کے مضامین کی تمہید اس قدر سحر انگیز اور خوبصورت ہے کہ وہ قاری سے ایک ہی نشست میں پورا مضمون پڑھوانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اس حوالے سے’ بساطِ فن ‘ مستجمع الصفات کتاب ہے۔لفظوں کا انتخاب ، جملوں کی برجستگی ،موضوعات و عنوانات کی دلکشی نسیم اشک کو معاصر ادیبوں میں انفراد و اختصاص عطا کرتی ہیں.”
نسیم اشک کی تین کتابیں “دل کا موسم ” ،”رات ڈھلنے کو ہے”اور “بساطِ فن ” قارئین سے داد وصول کرچکے ہیں۔بساط فن میں موصوف نے اپنے تجربے کو شامل کیا ہے۔نسیم اشک کا مطالعہ و مشاہدہ نہایت ہی وسیع ہے ،جتنی بھی شخصیت دل آویز ،پر اثر اور پر کشش ہیں ان پر خوشی سے دل صاف کرکے خوبصورتی سے قلم چلایا گیا ہے۔اپنی شاعری میں موضوعاتِ زندگی کے ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے شاعروں پر خوب لکھا ہے جو موضوع کے اعتبار سے منفرد ہوتے ہیں۔ایسے مضمون کے مطالعے سے نسیم اشک کی قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ادب کا ایک اہم نام ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے بساطِ فن پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں لکھا ہے۔
“مجموعۂ مضامین”بساطِ فن “کے غائر مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسیم اشک کے یہاں نہ صرف مطالعے سے گہرا شغف اور لگن ہے بلکہ فن پارے کو تقابلی اور معروضی انداز میں پرکھنے کا ہنر بھی ہے ،ان کی زبان بہت رواں ،شستہ اور شگفتہ ہے۔ان کی تحریر میں ایک ایسی سنجیدگی اور متانت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شعراء اور ادباء کی تخلیقات کو بغیر کسی جانب داری کے پرکھنا چاہتے ہیں،نیز ان کے مقام کے تعین کی کوشش بھی کرنا چاہتے ہیں۔”
نسیم اشک افسانہ لکھیں ،نثری نظم کہیں یا مضامین لکھیں وہ قاری کے لئے بہترین تحفہ ہوتا ہے۔منفرد انداز میں کھرا کھرا لکھنے کے عادی ہیں یہ نسیم اشک کا اپنا انداز ہے۔موصوف ادب میں معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔مضمون نگاری کوئی آسان کام نہیں ہے جس میں پختگی ہوگی جس کا بالیدہ شعور ہو،وہی اسے طریقے سے قرطاس پر اتار سکے گا اور یہ کام نسیم اشک نے کیا ہے۔
نسیم اشک نے بساطِ فن میں عظیم انصاری کی ترجمہ نگاری کا تجزیہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔نسیم اشک نے لکھا ہے۔
“ترجمہ نگاری کا فن نہایت صبر آزما اور سخت ہوتا ہے۔اس پتھریلی راہ پر وہی چلتا ہے جو مستحکم ارادہ اور مظبوط حوصلہ رکھتا ہو۔عظیم انصاری کا نام اردو ادب میں نمایاں ہے۔شاعری کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے وہ بڑی لگن اور محنت سے ادب کی خدمت کرتے ہیں۔”
بساطِ فن میں تمام مضامین تاثراتی ہیں مگر اس میں تنقید کی خوشبو بھی قاری کے ذہن کو متاثر کرتی ہے ۔فکری سطح پر نسیم کے یہاں کئی طرح کی تکنیک مضامین کی سطر میں محسوس کی جاسکتی ہے اور یہی انداز دوسرے مضمون نگاروں میں انہیں ممتاز بناتا ہے۔بساط فن میں حقانی القاسمی یوں رقم طراز ہیں۔
“نسیم اشک نے اپنے اس مجموعہ میں شمس و قمر، لعل و گہر نجوم و جواہر اور نئی جہات کی جستجو کا جو فریضہ انجام دیا ہے ،وہ قابلِ داد ہے۔توغل کے فقدان کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں موضوعی سطح پر جو بحران کی کیفیت طاری ہے۔نسیم اشک نے اس سے نجات دلانے کی اچھی کوشش کی ہے۔انہوں نے اپنی تنقیدی تاثرات کا اظہار سادہ اور سلیس انداز میں کیا ہے۔ان کی تنقیدی زبان میں ژولیدگی اور ابہام نہیں ہے۔فنکاروں کے امتیازات اور اختصاصات کی نشاندہی بھی خوبصورت پیرائے میں کی ہے۔”
نسیم اشک نے زبان و بیان ،خیالات اور بالغ نظری کو جس انداز میں اپنے مضامین میں درشایا ہے وہ قابلِ داد ہے۔شعر و ادب ،سیاست و معاشرت سب پر نسیم اشک کی نظر رہتی ہے۔موصوف نے روایتی ڈگر سے ہٹ کر مضامین کو نیا انداز دیا ہے۔ڈاکٹر محمد مستمر پر اپنا قلم دوڑاتے ہوئے نسیم اشک لکھتے ہیں۔
“محمد مستمر ایک منفرد افسانہ نگار ہیں اور اس انفرادیت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں حقیقت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ان کے افسانوں میں طلسماتی نظارہ،خواب و خیال کی باتیں ، حسن و عشق کے قصے نہیں ہیں بلکہ ان کے افسانوں کو پڑھنے کے دوران قاری کے اندر بھی ایک افسانہ نگار پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اسے بجھے چہرے کی جھریاں دکھاتا ہے”
نسیم اشک اپنے مضامین میں مختلف موضوعات کو قلم کی زد میں لاتے رہتے ہیں ان کے مضمون میں ترسیل و اظہار کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔اپنی تخلیقی صلاحیت کو عصر حاضر کے قلم کاروں کی خوبیوں اور خامیوں کی روشنی میں اشک کا قلم قاری کے ذہن کو منور کرتا ہے۔
احسن امام احسن
بھونیشور ، اڈیسہ
Leave a Reply