تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اقبال – شاعر یا مفکرڈاکٹر فیصل حنیف

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, April 26th, 2023

اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختہ شام و سحر تازہ کریں

دانائے رازحکیم الامت شاعر ِمشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں جن کے کلام کی آفاقیت، گہرائی اور گیرائی، اور رنگا رنگی انہیں ایک ہمہ جہت شاعر ثابت کرتی ہے- ان کا ہر شعر ان کے فنی خلوص سے معمور نظر آتا ہے- اقبال بطورِ مفکر ایک خاص مقام کے مالک ہیں- تاہم ان کی حیثیت بطورِ شاعر، اردو ادب میں منفرد ہے- جید نقاد ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اقبال کی شاعری اور شخصیت کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے “غمِ دوراں کا ایسا نوحہ خواں اور عظمتِ انسان کا ایسا قصیدہ خواں بیسویں صدی میں کوئی شاعر نہ ہوگا-“

اقبال ایک شاعر تھے یا مفکر؟ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں دو آراء موجود ہیں- اگرچہ اقبال دونوں حیثیتوں میں عوام و خواص میں حد درجہ مقبولیت رکھتے ہیں، تاہم اقبال کی مفکر یا فلسفی والی حیثیت ان کے شاعری کے بالمقابل ثانوی درجہ رکھتی ہے- لیکن اس کے جواز میں یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اقبال کے پیش کردہ افکار معاصر اور پرانے شعراء، ادباء اور فلسفیوں کے افکار کی بازگشت ہیں – اقبال کی بنیادی حیثیت شاعر کی ہے اور ان کا فلسفہ اور پیغام شاعری کا ہی مرہونِ منت ہے- اقبال نے اگرچہ خود کسرِ نفسی میں یہ اعتراف کیا ہے کہ “میں شاعر نہیں”- سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں، اقبال لکھتے ہیں “میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا- اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں- فنِ شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی- ہاں، بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے-“

اقبال کے اس بیان کو سطحیت سے بلند ہو کر دیکھنے کے لیے اقبال کے نظریہٴ فن کو سمجھنے کی ضرورت ہے- اقبال سے پہلے برِصغیر اور باہر ادب و فن کے بارے میں متعدد نظریات ملتے ہیں- سب سے پہلے یونان والوں نے اس امر کی طرف دھیان دیا- افلاطون نے ادب، خاص طور پر شاعری اور ڈرامے پر کڑی تنقید کی اور اپنی خیالی مثالی ریاست سے شاعروں کو جلا وطن کر دیا- اس کے خیال میں یہ دنیا، عالم خیال کی نقل ہے اور فن اصل میں نقل کی نقل ہے- نیز شاعری نوجوانوں کے ذہن پر گمراہ کن اثر ڈالتی ہے- ارسطو، جو انیس برس تک افلاطون کا شاگرد رہا، اپنے استاد کے نظریے سے متفق نہیں تھا اور فن کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا- اس کا خیال تھا کہ فن کی مدد سے ہمارے جذبات کی نکاسی کی راہ نکل آتی ہے جس سے تزکیہٴ نفس ہو جاتا ہے- جدید دور میں، خاص طور پر گزشتہ چند صدیوں میں فن کے بارے میں نئے نئے خیالات نے راہ پائی اور ادب برائے ادب یا فن برائے فن کے بعد فن برائے زندگی مقبول ہوتے گئے- اقبال کے دور میں ادب میں نئی نئی تحریکیں جنم لے رہیں تھیں- ایک طرف یورپ میں ایجادات اور ترقی نے زندگی کو بہت گہرے انداز سے متاثر کیا تھا اور دوسرے اس کا ادب و فن پر بھی اثر بڑھتا جا رہا تھا – یوں تو شاعری میں عہدِ نو کی بنیاد کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں مولانا محمد حسین آزاد نے کئی دہایاں قبل رکھ دی تھی، لیکن اقبال کا دور آتے آتے یہ عمل زیادہ سرعت اختیار کر گیا – ہئیت پسندی اور رومانویت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہیں تھیں اور شاعری پر حقیقت نگاری کا رنگ چڑھتا جا رہا تھا- اقبال نے مردہ ہئیت پرستی کو کسی بھی انداز سے پسند نہیں کیا- وہ داغؔ کے شاگرد ضرور تھے، مگر سوچ حالیؔ کی سی رکھتے تھے- اقبال فن کی مقصدیت کے قائل تھے اور اس امر کے اعتراف میں وہ خود کو شاعر کہنے سے ہچکچاتے تھے- یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال ان روایتی شاعروں میں سے نہیں تھے جنہوں نے اپنی ساری توانائی اور عقل و ہنر اس شاعرانہ وحشت کی نمایش میں صرف کر دیے جس سے بخیہ گروں تک کے دلِ حیراں الٹے ہوگئے اور وہ چاکِ گریبان الٹا سینے لگے-

اس باب میں اقبال اور ان کے پیشروؤں میں فرق کو نابغۂ روزگار ادیب اور نقاد احمد شاہ پطرس بخاری نے خوب بیان کیا ہے کہتے ہیں کہ اقبال “وہ انسان ہے جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا”۔

علامہ صاحب کی وفات پر وہ لکھتے ہیں “اقبال کی وفات سے ہندستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ باعظمت ہستی سے محروم ہوگیا۔ وہ بطور ایک عالم متجر اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم بھی ان لوگوں کے لئے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے، منبع فیض وجود تھا۔ بطورِ شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر ونفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک بہت بڑا شارح چھن گیا ہے وہاں اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی درازمدت کے لئے اہمیت اور منزلِ مقصود چھن گئی۔ کم وبیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی او رہرکس وناکس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ مقبولِ عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا۔ اس وقت شاعری کیا تھی؟ محض جذبات انگیز عیاشی، نرم ونازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سراسر بےربط۔ اسی لیے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اورمتانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی۔”

اقبال کے کلام میں ایسے بہت سے اشعار مل جاتے ہیں جن میں شاعری کی مقصدیت والے پہلو کو ابھارا گیا ہے- ایک جا لکھتے ہیں

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے تاریخِ امم جس کی ہے تفصیل

وہ شعر کہ پیغامِ حیاتِ ابدی ہے
یہ نغمہٴ جبریل ہے یا بانگِ اسرافیل

اقبال کے خط اور ان اشعار سے بظاھر یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اپنے شاعر ہونے کی نفی کر رہے ہیں اور اپنی شاعری کو بعض مقاصد کے حصول کا ذریعہ بتا رہے ہیں- اقبالیات کے باب میں اکثر لوگ اقبال کے شعری نظام کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں- اقبال اس امر کے قائل تھے کہ شاعر کی نوا زندگی آموز ہو- ان کے نزدیک علم و فن دونوں زندگی ہی کا ایک روپ ہے اور انہیں زندگی کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے- ایسے بلند خیال کا مالک افلاطون کی طرح فن کو صرف نقل نہیں مان سکتا تھا- – اقبال کے خیال میں خدا کی بنائی اس کائنات میں فن کا مقصد بہت ا علیٰ اور ارفع ہے- اقبال کے ہاں زندگی آموز نظریہ پایا جاتا ہے، وہ انسان کو ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کرنے کے بجائے آفتابِ تازہ کی نمود کی نوید دیتے ہیں اور اپنی فطرت کی تجلی زار میں آباد ہونے کا مشوره بھی- علامہ صاحب کی شاعری میں عصری شعور بھی پایا جاتا ہے اور آنے والے زمانے کا ساتھ دینے کے لیے بار ِسفر بھی- وہ ماضی مرحوم کو یاد کرتے ہیں، خوب یاد کرتے ہیں، لیکن رونے کے لیے نہیں بلکہ محض اس لیے کہ ماضی سے روشنی حاصل کر کے مستقبل کو چمکا سکیں- روشن ماضی کے سامنے اپنے حال کو تاریک دیکھ کر اس کا افسوس کرتے ہیں لیکن اپنی فنی مہارت سے ایسے اشعار کو مرثیہ بننے نہیں دیتے بلکہ نوحہ خوانی کے بجائے مستقبل کی تیاری اور منصوبہ بندی کو ترجیح دیتے ہیں-

اقبال کے ہاں اصلاحی پہلو وافر ملتا ہے لیکن اس کے باوجود شعریت میں کہیں بھی رتی بھر کمی نہیں آتی- اقبال کو خدا نے خیالات کو آسان اور دلربا انداز میں کہنے اور الفاظ برتنے کا خاص ہنر اور سلیقہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی شاعری سوز و گداز اورخاص کیفیات کی حامل ہے جس میں جلال و جمال کی ایسی آمیزش ملتی ہے جو سننے والوں پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو روشن اور معطر کر دیتی ہے-

کلامِ اقبال میں افکار اور فلسفیانہ خیالات کی بہتات ہے- نظریۂ خودی، فلسفہٴ حیات، عرفانِ ذات، تسخیرِ کائنات، وحدت الوجود، کشمکشِ خیر و شر، نظریۂ ریاست، تصورِ فقر، تصور ِعشق، علاماتِ اقبال (شاہین، مردِ مومن، خونِ جگر) شاعری سے زیادہ افکار کے زمرے میں آتے ہیں- ان اور ان سے ملتے جلتے موضوعات پر اقبال نے بھرپور خامہ فرسائی کی ہے جو ان کی شاعری میں فلسفے کے عمل دخل کا ثبوت ہے-

اقبال کا نظریہ زندگی جمال الدین افغانی سے اثر پذیر ہے- فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں نے یورپ کی حرفتی تہذیب پر جو اعتراضات کئے، اقبال کے خیالات ان سے بھی متاثر ہوئے- دوسرے کئی مغربی اور مشرقی اہل علم جن سے اقبال نے اثر لیا کی ایک طویل فہرست ہے- اقبال نے، لیکن، اسلام کے نام پر اپنی شاعری میں ایک تصورِ عالم پیش کیا اور یہ تبلیغ کی کہ مسائل زندگی کا واحد حل یہی ہے کہ دنیا اس تصور کو عملی جامہ پہنائے- اقبال کا پیغام اس واسطے آفاقی ہے- فلسفے کو ایک طرف رکھ کر اگر اقبال کی خالص شاعری اور مقصدیت سے بھرپور اشعار کی شعریت کا جائزہ لیا جائے تو ان کا یہ پہلو ان کے فلسفیانہ اور افکاری پہلو سے بھی زیادہ بھرپور دکھائی دیتا ہے- غزلیات ، نظموں میں منظر نگاری، خالص شاعرانہ انداز اور تیور، اور روایتی مضامین کی اقبال کے ہاں کمی نہں-

گوشۂ دل میں جہانِ اضطراب چھپانا، زہرہ دشاں اور سیمِ براں کو حلقۂ نوحہ گروں میں شامل کرنا، بے اثر نالوں سے عشق میں پختگی کا درس، دخترِ دہقاں کے گیت کی سادگی اور سوز کا محسوس کرنا، اپنے رازداں سے اپنی درد مندی کا فسانہ سننا، قاصد سے محبوب کے طرزِ انکار کا استفسار، دردِ فراق میں موت کو نسخہ جاننا، علاجِ درد میں درد کی لذت پہ مرنا، شوقِ دید میں بند آنکھوں سے دیکھنا، سکونِ دل سے سامانِ کشودِ کار پیدا کرنا، مجنوں کو بھی لیلیٰ کی طرح محمل نشیں دیکھنا، ہوشیاری اور مستی میں امتیاز نہ کرنا، عاشقی کی الگ رسم کا اختراع، کوئی شاعر ہی کر سکتا ہے- ایسے باکمال، یکتائے زمانہ شاعر کی شاعری کو معنویت فطرت سے عطا ہوتی ہے-

مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

اقبال کی خالص شاعری اور مقصدیت کی شاعری، انہیں ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اردو ادب کا ممتاز شاعر ٹھہراتی ہے- اچھے شعر کی ہر خوبی کلامِ اقبال میں موجود ہے- اقبال نے نظم اور غزل میں فرق کم کرنے کی کوشش کی ہے- ان کی بہت سی غزلیں ایسی ہیں جو ‘غزل مسلسل’ کا بھرپور نمونہ پیش کرتی ہیں اور اپنے وحدتِ تصور کی بنا پر نظم کا سا تاثر دیتی ہیں- دوسری طرف ان کی نظموں میں اندازِ تغزل بھرپور طور پر دکھائی دیتا ہے- اقبال کے کلام میں شاعرانہ پہلوؤں پر نگاہ رکھتے ہوئے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اقبال کی دونوں حیثیتوں بطورِ شاعر اور بطورِ فلسفی یا مفکر میں سے وہ بطورِ شاعر زیادہ بلند مرتبے کے مالک ہیں اور انہیں اسی پس منظر میں دیکھنا زیادہ مناسب ہے- اقبال نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اقبال کی دلکش شاعری سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ فلسفہ کا درس دیتے ہیں اور ساتھ عاشقی اختیار کیے ہوئے ہیں – یعنی اقبال نے عقل و خرد کے ساتھ ساتھ عشق بھی اختیار کیا جو ان کی شاعری میں نمایاں ہے-

ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید

ڈاکٹر فیصل حنیف
چیئرمین، بزم اردو قطر
بانی و صدر، اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ
بانی و صدر، گزرگاہِ خیال فورم


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International