تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!زندگی زندہ دلی کا نام تو پھر نفرتیں کیوں؟رشتے اور قربتیں روبہ زوال کیوں؟سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سراۓ فانی میں آنے کا بھی تو ایک مقصد عظیم تھا۔تخلیق آدم سے اب تک تاریخ ایسی داستان ہے جس میں انسانی زندگی کے مختلف روپ نظر آتے ہیں۔جب یہ علم اور شعور سے بے بہرہ زندگی بسر کرنے پر کمربستہ ہوا تو تیغ و تلوار سے خون بہا کر انسانیت کے احترام سے بغاوت پر اتر آیا اور اس کے ظلم وستم سے تاریخ بھی افسردہ سی کہانی بیان کرنے پر مجبور دہوئی۔ہزاروں مثالیں موجود ہیں جن پر انسانیت آج تک ماتم کناں ہے۔زمانہ جہالیت میں بیٹی جیسی اولاد والد کے ہاتھوں پیوند خاک ہو جاتی تھی۔فسادات جب پھوٹ پڑتے تو ہر طرف خونی منظر ہوتے تھے۔گویا زندگی کسی بے آسرا پنچھی کی مانند مسکراہٹ کی تلاش میں ہوتی تھی۔زندگی کے تقاضے اس قدر پریشان نظری کا شکار کہ سکون متاع گم گشتہ تھا۔ہر طرف ویرانی اور وحشت کا ماحول اور بھی ہیبناک کیفیت کے ساۓ سے مسکرانے کی عادات نہ ہونے کے برابر تھیں۔غرض مقام انسانیت کے پیمانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور عزت و آبرو کے آبگینے بد اخلاقی کی زد پڑنے سے اور بھی بکھرتے جاتے اور امن کا نغمہ جنگ و جدل کے مہیب سایوں میں گم ۔ خون کی بہتی ندیاں انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ بن جاتی تھیں ۔جب محبت کے دیس سجاۓ جاتے تو رنگ و نسل کا امتیاز بالاۓ طاق رکھتے انسانیت کے احترام کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی۔اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی مسکراتی رہے۔انسان چونکہ محبت کرنے کی جبلت سے متصف ہے اس لیے اس خوبی کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر
متاعِ بے بہا ہے دردسوز آرزو مندی
گلستان حیات میں رونق بھی تو مسکراہٹ سے پیدا ہوتی ہے اور انسان کا خاصا بھی ہے بقول شاعر
ایک ہلکا سا تبسم ہے قیمت میری
کے مصداق مسکراہٹوں کے پھولوں کا تمنائی رہتا ہے اس اصول کے تحت سماج کی زینت میں اضافہ اور گلشن زیست میں بہار کے موسم کے لیے ایک تاریخ ساز کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔عدل و انصاف کا بول بالا،انسانی حقوق کا احترام،قانون کی پاسداری،حصول علم کے لیے رغبت، انسانیت کی بے لوث خدمت اور انسانیت کا احترام جیسے اصولوں پر عمل داری اور دوسروں کی راۓ کا احترام اور انا پرستی کے فسوں کو ختم کرتے اتحاد،تنظیم،ایمان کے فروغ کے لیے کام کرناہی تو زندگی کے گلشن میں رونق پیدا کرنے کے مترادف ہے۔اسلام کی تعلیمات کے مطابق مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے۔اس لیے زندگی کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور مشکلات کم کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔تمام نسلی ،خاندانی،تعصبات کا خاتمہ کرتے عالمگیر محبت کے اصول کو فروغ دے کر زندہ رہنے کی ضرورت ہے لیکن جب یہ کیفیت دکھائی دیتی ہے بقول شاعر:۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
گویا ایسے ماحول میں محبت کے پھول کھلنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔اس ضمن میں ایک پیام حق جسے منشور انسانیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جہاں پیغمبر اسلام سرور کائنات محسن اسانیت اور معلم انسانیت نے حجۃ الوداع میں فرمایا کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر،کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فوقیت حاصل نہیں فوقیت کی بنیاد صرف تقوٰی ہے۔اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو اسلامی تعلیمات اور اسوہ رسولﷺ پر عمل کی ضرورت ہے۔انسان کی تخلیق عبادت الٰہی کے لیے ہوئی اس کے آئینہ میں منشور انسانیت کی روشنی میں عمل کرنے سے ہی زندگی کو مسکرانے کا موقع مل پاتا ہے۔اس لیے دوسروں کے لیے نیک جذبات اور احترام کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اچھی طرح جان لینا چاہیے زندگی کی مسکراہٹ صرف اور صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں سے ممکن ہے۔نفرت کی دیواریں بلند کرنے سے تو امن کا سورج غروب ہوتا اور بے چینی کی شب دراز ہوتی ہے۔سب سے اچھی خوبی دوسروں کو معاف کرنا ہے۔اس صفت سے زندگی گل و گلزار بن پاتی ہے۔اچھا ماحول ہی تو فروغ امن کے لیے سازگار ہوتا ہے۔جوش انتقام اور اپنی برتری جیسے رجحانات سے مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں۔فتنہ و فساد تو قتل سے بھی سخت تر ہے۔اس لیے ہر فرد اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مخلصانہ کردار ادا کرے تاکہ زندگی مسکراتی رہے۔زندگی کے سفر میں آداب محبت کے اصولوں پر عمل کرنے سے ایک اطمینان بخش کیفیت پیدا ہوتی اور دلکش چاہتوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔حسن اخلاق کے گلاب کس قدر عکس زندگی کو شگفتہ بناتے ہیں اس کا احساس فقط اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دوسروں کی خیرخواہی کے جذبات قباۓ دل میں پیدا ہوں۔رواداری,ملنساری,خودداری اور بے شمار خوبیاں حسن زیست میں رنگ آمیزی کرتے دلکشی کا مرقع بنا دیتی ہیں۔نرم لہجوں میں بات کرنا کس قدر اہم تصور ہوتا ہے اس کا جائزہ دل کے آئینہ میں ہونے سے روپ زیست اور بھی خوشنما بن پاتا ہے۔دوسروں کی خواہشات کا احترام اور ضروریات پوری کرنا کس قدر خوب صورت بات ہے ۔آئینہ حیات میں جھانک کر دیکھیں تو تبسم فروشی سے ہی پھول کھلتے ہیں اور خواہش بھی یہی کہ زندگی مسکراتی رہے
Leave a Reply