مجھ دِیے سے کوئی نہ جلتا تھا
میں اُجالے میں تھا تو اچھّا تھا
اب مرے پاس کیا ہے کھونے کو
تجھ کو سب کچھ گنوا کے پایا تھا
خامشی کا تھا مدّعا کچھ اور
حیف کچھ اور تم نے سمجھا تھا
قصۂ حسن و عشق مت پوچھو
اِک سراب اور ایک تشنہ تھا
دور رہ کر بھی تھا وہ کتنا قریب
دور کا بھی نہ اُس سے رشتہ تھا
کیا تمھیں یاد ہے وہ بازیِ عشق
کس طرح ہار کر میں جیتا تھا
ٹوٹنے سے بچا سکا نہ مجھے
ٹوٹ کر جس نے مجھ کو چاہا تھا
کم نہ تھی دھوپ آزمایش کی
تیری چاہت کا رنگ گہرا تھا
ایسا لگتا تھا ڈور ٹوٹ گئی
تم سے جب آپ آپ سنتا تھا
میرے اندر ہی تھا چھپا راغبؔ
مجھ کو جس کی انا سے خطرہ تھا
افتخار راغبؔ
دوحہ، قطر
کتاب: کچھ اور
Leave a Reply