تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!مطالعہ کا مفہوم بہت واضح ہے اس سے مراد پڑھنا اور واقفیت حاصل کرنا ہے۔مطالعہ کی اہمیت بہت واضح ہے ۔اس سے سیرت و کردار میں نکھار اور شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔تعلیم حاصل کرنے کے جتنے بھی مدارج ہیں ان میں مطالعہ کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔گویا انسان کی جبلت میں یہ بات ہے کہ سیکھنے کا جذبہ قدرت نے پنہاں رکھا ہے یہی وجہ بھی کہ علم کے موتی تلاش کرنے کا جنون بھی سرشت میں ہے۔ماہرین تعلیم کے مطابق ابتدائی تعلیم میں حروف شناسی اور الفاظ شناسی کا تصور دیا جاتا ہے اور مختلف تصورات ذہنوں میں پختہ کرنے کے لیے تحریک پیدا کی جاتی ہے۔بالخصوص تعلیمی اداروں میں معصوم ذہنوں میں تصورات پختہ کرنے کی رسمی کوشش کی جاتی ہے۔جوں جوں بچے اگلی جماعتوں میں جاتے ہیں مطالعہ کی عادات پختہ ہوتی ہیں۔صرف و نحو سے قواعد اردو تک, جملہ سازی سے تقاریر کے فن تک,اسی طرح ریاضی,سائنس,اور دیگر نوع کے مضامین باقاعدہ طور پر طلبہ کو پڑھاۓ جاتے ہیں جس سے ان میں مطالعہ کا رجحان پختہ ہوتا ہے اور پڑھنے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔علامہ محمد اقبالؒ کے مطابق”مطالعہ انسان کے لیے اخلاق کا معیار ہے“
امام غزالی ”بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے اس لیے اچھی کتب کے مطالعہ کی ضرورت ہے“
حکیم ابو نصر فارابی ”تیل کے لیے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہو کر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا“
ایڈیسن”ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اور مطالعہ کی دماغ کے لیے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لیے“
بیکن”مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے“
اور اسلامی تناظر میں دیکھا جاۓ تو پہلی وحی میں بھی اقراء کا پیغام ہے۔آپﷺ نے اس کی روشنی میں اقراء کی صداۓ بازگشت سے انقلاب لایاجس کے مطابق آج بھی انسان علم کے نور سے دل و دماغ روشن کر پاتا ہے ۔کالم میں جس بات کا اعادہ کرنا ہے وہ یہی ہے کہ مطالعہ کی عادات کو فروغ دینا ہے۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مطالعہ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔دلچسپی سے سرشار افراد اور طلبہ اخبارات و جرائد,تفاسیر,احادیث,سیرت, مشاہیر کے حالات زندگی,اور بے شمار نافع علوم کے مطالعہ سےعلم کی پیاس بجھاتے ہیں۔علم چونکہ بڑی دولت ہے اس کا حاصل کرنا ہی انسانیت کے تقاضے پورا کرنا اور وقت کے حالات کو سمجھنا ہے۔دین اسلام عالمگیر نظام حیات کے ساتھ ساتھ جامع نظام تعلیم بھی پیش کرتا ہے۔قرآن مجید منبع علم و حکمت ہے۔ماہرین علم کے مطابق مطالعہ کتب سے ذخیرہ علم میں اضافہ ہوتا اور تجربات سے زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی ہے۔صحت مند زندگی بسر کرنے کے لیے مطالعہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔کتب کے مطالعہ سے نہ صرف انسان کے زاویہ خیال میں وسعت پیدا ہوتی ہے بلکہ سوچ اور شعور بھی بیدار ہوتا ہے۔انسان حالات کے جبر کا مقابلہ کرنے اور درپیش مسائل کا جامع حل بھی تلاش کرنے کے قابل ہوتا ہے اور زندہ رہنے کے اصول بھی سیکھ لیتا ہے۔خوشگوار زندگی کے لیے مفید اور نافع علوم پر مشتمل کتب کا مطالعہ نہ صرف فرصت کے لمحات بسر کرنے بلکہ سکون اور اطمینان کی دولت بھی میسر آتی ہے۔مطالعہ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے بغیر زندگی بیکار ہے۔انسان کی زندگی کے قیمتی لمحات وہی ہوتے ہیں جو کتب کے سینوں سے علم کے موتی تلاش کرنے میں گزریں۔اس میں عمر کی کوئی قید نہیں مطالعہ کی عادات جس قدر پختہ ہوتی ہیں علم کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔انسان چونکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لیے دنیا میں آیا اور فرمان رسولﷺکےمطابق ”علم ماں کی گود سے قبر تک حاصل کرو“اسی میں انسان کی کامیابی اور عافیت ہے۔کتب کے مطالعہ سے قباۓ دل میں اجلے اجلے علم کے پھول کھلتے ہیں۔خداداد صلاحیتوں میں ایک نکھار پیدا ہوتا اور اسلوب زندگی کا قرینہ آتا ہے۔گویا دل کے آنگن میں خوشیوں اور مسرتوں کے گل تروتازہ ہوتے ہیں۔علم حاصل کرنے کی خواہش جس قدر ہو گی تو کتب خانوں میں بھی رونق پیدا ہو گی۔مطالعہ کے فوائد سے آگاہی بہت ضروری ہے۔اظہار خیال کا جذبہ,سیکھنے کی لگن,لکھنے کی مہارت اور سوچنے کی عادت ذوق مطالعہ سے ہی ممکن ہے۔تعلیمی اداروں کا بہتر ماحول فروغ مطالعہ کی عادات کو بہت بہتر بناتا ہے۔اس لیے طلبہ کے لیے کتب خانہ اور اس کا استعمال کے حوالے سے آگاہی ضروری ہے۔طلبہ میں جس قدر مطالعہ کی عادات پختہ ہوں گی اسی قدر تعلیم کے عمل میں بہتری آۓ گی۔عام افراد بھی شوق مطالعہ سے علم کی دولت سے استفادہ کر سکتے ہیں۔فضول مشاغل کی بجاۓ مطالعہ کرنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہی درخشاں مستقبل کی ضمانت ہے۔انسان کی عظمت کا راز کتاب دوستی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے بے شمار کتب کے مطالعہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اس لیے نوجوان نسل کو بھرپور کتب کے مطالعہ سے استفادہ کرنا چاہیے۔طلبہ چونکہ ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اس لیے انہیں مطالعہ کتب کی ترغیب دینی چاہیے۔لیکن یہ بات المیہ سے کم نہیں کہ عصر حاضر کا نوجوان محض وقت گزاری کے لیے مشاغل میں تو دلچسپی لیتا ہے لیکن کتاب پڑھنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔یہ احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان معاشرے اور سماج کا زیور ہیں ان کی بہتر تعلیم اور تربیت ضروری ہے اور مطالعہ کے لیے آمادگی جزو لازم ہے۔یہ بات باور کرانے کی ہے کہ علم سے شاہینی صفات پیدا ہوتی ہیں۔علم چونکہ ایک وسیع سمندر ہے اس لیے علم کے موتی شوق مطالعہ سے تلاش کرنے کے لیے غوطہ لگانا چاہیے۔علم و حکمت کے چراغ روشن ہونے سے زندگی کی شب تاریک کا خاتمہ ہوتا ہے۔اور نیک ساعتوں کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔
Leave a Reply