خواب آنکھوں میں اُترنے پہ کوئی قید نہیں
دیدۂ و دل کے بکھرنے پہ کوئی قید نہیں
کاش سب خواب ہمارے ہوں حسیں اور دراز
خواب میں ہم پہ سنورنے پہ کوئی قید نہیں
پھر بکھر جائیں سبھی سپنے کُھلیں جب آنکھیں
بے سبب خواب میں مرنے پہ کوئی قید نہیں
خواب میں خواب کی تعبیر نہیں مل سکتی
اشک سے جام کو بھرنے پہ کوئی قید نہیں
رات گہری ہوئی سپنوں کے کِھلے ہیں غُنچے
آ کہ سپنوں میں نکھرنے پہ کوئی قید نہیں
ہے عجب کتنا یہ سپنوں کا جہاں اب سارا
دل میں میرے ، ترے دھرنے پہ کوئی قید نہیں
داستاں ہے یہ حسیں کتنی ثمر خوابوں کی
ڈوب کر اِس میں اُبھرنے پہ کوئی قید نہیں
ثمرین ندیم ثمر
Leave a Reply