امان ذخیروی : بچوں کا نبض شناس شاعر
ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
امان ذخیروی اپنی پختہ شاعری کی وجہ سے ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔ شاعری کے زیادہ تر اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ 1990سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے امان ذخیروی کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ وہ کتابیں ’’پرندوں کا سفر‘‘ (ہند ی غزلوں کا مجموعہ ) 1912، ’’نوائے شبنم ‘‘ (اردو نظموں کا مجموعہ) 2019، ’’گلہائے آرزو‘‘ (رخصتی ناموں کا مجموعہ ) 2019اور ’’سمے پائے ترور پھلے‘‘ (ہندی دوہوں اور غزلوں کا مجموعہ) 2020میں شائع ہوکر قارئین و ناقدین ادب سے داد و تحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہیں۔
’’آغوش میں چاند‘‘ امان ذخیروی کا پانچواں اور تازہ ترین شعری مجموعہ ہے جو بچوں کی نظموں سے آراستہ ہے۔ یہ مجموعہ 2024ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ مجموعہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب میں شامل زیادہ تر نظمیں بچوں کے لئے سبق آواز ہیں ۔ وہ کسی نہ کسی پیغام سے لبریز ہیں۔
کئی نامور ہستیوں اور قلمکاروں نے پیش لفظ اور تقریظ کی صورت میں اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ سب سے پہلے فرزانہ فرحت (لندن) نے ’’نسل نو کا معمار امان ذخیروی‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’امان ذخیروی ایک قابل قدر استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پختہ لب ولہجہ کے شاعر بھی ہیں ، جنہوں نے شاعری کو نئے مضامین عطا کئے۔ وہ اردو اور ہندی شاعری میں ایک فکر کے معمار اور ایک عہد کی شناخت ہیں۔ انہوں نے ایم اے اردو اور بی ایڈ کی تعلیم حاصل کی اور اب اردو مڈل اسکول جموئی میں بطور ہیڈ ماسٹر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ علم کی روشنی سے نئی نسل کے سینوں کو منور کر رہے ہیں۔ ‘‘(ص:10)
’’آغوش میں چاند۔ روشن زندگی کا پیغام‘‘ کے عنوان سے پروفیسر جاوید حیات (شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ) لکھتے ہیں:
’’آغوش میں چاند‘‘ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے اس بات کو محسوس کیا جاسکتا ہے کہ امان ذخیروی اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کو روشن بنانے کے متمنی ہیں۔ چنانچہ ابتدا دعا سے ہوتی ہے:
خدایا مجھ کو ایسی زندگی دے
جو میرے نام کو پائندگی دے
مانگنا بچوں کی فطرت میں شامل ہے۔ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی چیز کی فرمائش کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے میں اس نظم’’ دعا‘‘ کے ذریعہ وہ بچوں کی اس جبلت کی تربیت کا کام انجام دیتے ہیں۔ ‘‘(ص:16)
عصر حاضر کے بلند پایہ شاعر رفیع الدین راز جن کا تعلق سرزمین دربھنگہ سے ہے لیکن اب وہ امریکہ میں مقیم ہیں ’’رزم گاہ اردو کا پر عزم سپاہی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’امان ذخیروی کا طرز تحریر بھی بہت غنیمت ہے۔ آج اردو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ آج کی فضا میں ایسی تحریر کی پذیرائی نہ کرنا ادبی بددیانتی ہوگی ۔ اگر ہماری یہ کوشش جاری رہی تو ان شاء اللہ ہم ایک دن رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی کی منزل کو بھی چھولیں گے۔ امان ذخیروی اردو زبان کی جنگ لڑنے والے ایسے سپاہی ہیں جن کے بازو بھی تھکن ناآشنا ہیں۔(ص:22)
شاکر انور (پاکستان ) نے ’’آغوش میں چاند ایک جائزہ‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار بڑے جامع انداز میں کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امان کی نظموں میں جو بیش بہا بات مجھے محسوس ہوئی وہ ہمارے ماحول، تہذیب اور معاشرت سے مطابقت رکھتے ہوئے کہی گئی ہے۔ امان ذخیروی پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور بہار کے ایک اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے تعلیم و تدریس کا کام انجام دے رہے ہیں۔
امان ذخیروی اپنے منظوم پیش لفظ بعنوان ’’ورودِ دل‘‘کے ذریعہ اس مجموعے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
شکر رب العالمیں کا بے پناہ
جس نے مجھ پر کی کرم کی اک نگاہ
آج جو شعر و سخن کا نام ہے
یہ خدائے پاک کا انعام ہے
روشنی ہرگز نہ اس کی ماند ہے
اب مری آغوش میں وہ چاند ہے
اپنی تحریروں سے عزت بخش دی
مجھ کو فرزانہ نے فرحت بخش دی
دوسرے جاوید بھی ہیں اور حیات
آپ نے بھی کی ہے مجھ پر خاص بات
تیسرے حضرت رفیع الدین راز
ہیں جو امریکہ کے شاعر دلنواز
شاکر انور ہیں کراچی میں مقیم
ان کے فرمودات ہیں مثل نسیم
ہے مری تحریر کا حاصل یہی
اک فقط میرا ورودِ دل یہی
اس روئے زمین پر آنے والے تمام انسانوں میں زندگی کے تین ادوار ہوتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ان تینوں ادوار میں بچپن کی ایک خاص اہمیت ہے۔ کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں انسان کسی بھی ذہنی پریشانیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ انسان اپنے بچپن میں حیرت، امیدیں، انکشافات ، خوشی، غم اور تجربات حاصل کرنے کی خواہش میں اس طرح منہمک رہتا ہے۔ یہ عمر کے کسی دوسرے حصے میں نہیں پائی جاتی ہے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہے جس میں شعوری، نفسیاتی، فطری ، جسمانی اور سماجی ارتقا اور نشو و نما پرورش پاتی ہے۔ دل میں طرح طرح کے احساسات ، جذبات اور نظریات انگڑائیاں لیتے رہتے ہیں۔ جب انسان پانچ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تب وہ اپنے اردگرد پائی جانے والی چیزوں کا مشاہدہ شروع کرتا ہے۔ وہ درختوں، چڑیوں، جانوروں، پھولوں،پھلوں اور تتلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے ۔ ان کی آوازیں سنتا ہے اور اس کے نقل کی کوشش کرتا ہے۔ گارجین حضرات کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں کے حیرت آمیز سوالات کا جواب دینے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ سوال کرنے پر بچوں کو ڈانٹیں نہیں بلکہ کسی تشفی بخش جواب سے اسے خوش رکھنے کی کوشش کریں۔
اردو ادب میں بچوں پر بہت پہلے سے کام ہوتا رہا ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی سے لے کر آج تک کئی فنکاروں نے اس فرائض کو انجام دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی ادب اطفال پر لکھنے والوں کی کمی رہی ہے۔ اس پر فنکاروں اور قلمکاروں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی جن لوگوں نے اس جانب قدم بڑھایا ہے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ویسے حضرات جنہوں نے اپنی خدمات سے اردو کے خزانے میں ادب اطفال کے حوالے سے بیش بہا اضافے کئے ہیں ان میں ایک نمایاں نام امان ذخیروی کا ہے۔
’’آغوش میں چاند‘‘ کا آغاز امان ذخیروی نے دعا سے کیا ہے۔ بچوں کی زبانی وہ اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھاکر کہتے ہیں:
خدایا مجھ کو ایسی زندگی دے
جو میرے نام کو پائندگی دے
کرے تاریک راہوں کو منور
ہمیں تعلیم کی وہ روشنی دے
تکبر ایک شیطانی عمل ہے
ہمیں بس انکساری عاجزی دے
مسرت جن کی قسمت میں نہیں ہے
کرم سے اپنے اُن کو بھی خوشی دے
کبھی بھی غیر کے در پر نہ جائیں
ہمیں توفیق اے مولیٰ یہی دے
بہت ہی سادہ ، سلیس لیکن شگفتہ زبان میں شاعر بچوں کی جانب سے اللہ کے دربار میں عرض کرتا ہے کہ اے مولیٰ مجھے ایسی زندگی عطا کر جس سے میرا اور میرے ماں باپ کا نام روشن رہے۔ ہمارے راستے سے تاریکی دور ہو اور میری زندگی تعلیم سے مالا مال ہوسکے۔ ہمیں تکبر سے دور رکھ کیونکہ یہ شیطانی عمل ہے۔ ہر بچے کا دامن خوشیوں سے بھر دے ۔ اے مولیٰ ہمیں ایسی توفیق عطا کر کہ غیر کے در پر ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔
اللہ کے دربار میں حاضری کے بعد شاعر حضرت مصطفی ﷺ کی تعریف ایک خاص عقیدت کے تحت کررہا ہے۔ شاعر کہتا ہے:
جہاں کو جس نے راہِ حق دکھایا
محبت سب کو کرنا بھی سکھایا
یتیموں پر کیا شفقت کا سایا
ادا سے اپنی روتوں کو ہنسایا
سبھی کی آپ نے دنیا سنواری
سنو پیارے نبیؐ کی بات پیاری
بچوں کے لئے ادب تخلیق کرنا بہت ہی مشکل ترین فن ہے۔ بچوں سے متعلق کوئی بھی تخلیق چاہے وہ نثر میں ہو یا نظم میںرقم کرنے سے پہلے بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی سطح، ماحول اور حالات کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ادب تخلیق کرنے کامقصد بچوں کی ذہنی تربیت ہونی چاہئے ۔ بچوں کا ذہن گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے جسے کمہار چاک پر نچا کر جیسا برتن چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ایک بڑا فنکار وہ ہے جو اپنی تخلیقات سے بچوں کے ذہنی تربیت کا مکمل سامان فراہم کردے۔ ان کا ذہن اچھی عادتوں، اطوار، خصائل کو جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے قابل بن جائے۔امان ذخیروی نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں کے ذہن کی آبیاری کرنے میں کامیاب ہیں۔
’’آغوش میں چاند‘‘ مجموعۂ کا نام اسی نظم کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ نظم ’’آغوش میں چاند‘‘ کے ذریعے شاعر نے بچوں کی ضد کو پیش کیا ہے۔ وہ اپنی ماں سے سوال کرتا ہے کہ مجھے ہر حال میں چاند چاہئے۔ ماں نہایت اطمینان و سکون سے جواب دیتی ہے اور کہتی ہے میرے بچے تمہارا چاند آسمان میں ہے لیکن میرا چاند میری گود میں ہے یعنی تو ہے۔ اپنے ان خیالات کو نظم کے پیکر میں ڈھالتے ہوئے شاعر کہتے ہیں:
ایک شب منّت نے یہ ماں سے کہا
آسماں پہ چاند ہے کیا خوشنما
پیاری امی ایک احساں کیجئے
چاند میرے واسطے لا دیجئے
ماں نے یہ ہنس کر کہا میرے پسر
کچھ نہیں تجھ کو مرے دل کی خبر
فرق ہم دونوں میں کچھ اس طور ہے
چاند تیرا اور ، میرا اور ہے
ماں نے دھیرے سے کہا اے باوفا
ہے نہیں کچھ تجھ سے اس کا فاصلہ
وہ مرے فردانہ میرے دوش میں
چاند میرا ہے مری آغوش میں
ہر بچہ چاند کی طلب کرتا ہے ۔ وہ چاند کو تجسس سے دیکھتا ہے ۔ اسے ماما کہہ کر پکارتا ہے اور آسمان سے توڑ لانے کی ضد کرتا ہے۔ حیرت کے ساتھ چاند کو دیکھتے ہوئے بچہ خواہش ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کی زبانی ملاحظہ ہو:
چندا ماما کتنے پیارے
کیا آئوگے میرے دوارے
دور کھڑے ہنستے رہتے ہو
دنیا کو روشن کرتے ہو
لیکن پیارے ماما آئو
ہم کو بھی اک بات بتائو
تم پر یہ دھبا کیسا ہے
درپن کیوں دھندلا دھندلا ہے
بچے کی یہ باتیں سن کر
بولے چندا ماما ہنس کر
رب کی یہ قدرت ہے پیارے
جس کا جیسا روپ سنوارے
’’ماں‘‘ایک ایسا مقدس لفظ ہے جس کی عظمت پر کچھ لکھناسمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں دنیا کا وہ پیارا لفظ ہے جس کو سنتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا سایہ بچوں کے لئے ٹھنڈی چھائوں سے بڑھ کر ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا شفقت بھرا ہاتھ ہمیں ٹھنڈک کا احساس دلاتی ہے ۔ اس کی گرم گود سردی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ساری زندگی کانٹوں پر چلتی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کو پھولوں کی سیج میسر کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ وہ ایسی ہستی ہے جو اپنے بچوں پر ڈھیر ساری محبتیں نچھاور کرتی ہیں۔دنیا میں ماں سے زیاد ہ محبت کرنے والا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ایک بچہ اپنی ماں سے سوال کرتا ہے جسے امان ذخیروی نے شعری پیکر میں اس طرح ڈھالنے کی کوشش کی ہے:
پیاری امی بتا رات آتی ہے کیوں
آکے مجھ کو بھلا یہ ڈراتی ہے کیوں
کتنا اچھا تھا جو رات ہوتی نہیں
پھر اندھیرے کی کچھ بات ہوتی نہیں
ماں جواب دیتی ہے:
رات دن کے اجالے پہ احسان ہے
روشنی کی اندھیرے سے پہچان ہے
دن بنا ہے سنو کام کے واسطے
رات آتی ہے آرام کے واسطے
بچے خوشنما تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رنگ برنگی تتلیاں بچوں کے دل کو خوب بھاتی ہیں۔ شاعر کی زبانی سنئے:
ایک تتلی باغ میں اڑتی ہوئی
آکے وہ اک پھول سے کہنے لگی
کام مجھ کو کچھ نہیں عالم سے ہے
زندگی میری تمہارے دم سے ہے
یہ مرا کھلنا یہ مرجھانا مرا
تو ہی کہہ دے میرے بس میں کب رہا
کیسے کیسے ماہ رو آئے یہاں
مٹ چکا ہے جن کا اب نام و نشاں
عید خوشیوں کا تہوار ہے۔ ایک ماہ روزہ رکھنے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے انعام میں ملنے والا یہ تہوار ہے۔ بچے اس موقع پر کا فی خوش ہوتے ہیں۔ رنگ برنگے کپڑے پہننے اور خوشیاں منانے کی خواہش وہ لمبے عرصے سے اپنے دل میں لیے ہوتے ہیں۔ شاعر نے بچوں کے احساسات کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے:
خوشیاں لے کر آئی عید
سب کے من کو بھائی عید
رنگ برنگے کپڑے دیکھو
ہم سب کو پہنائی عید
کھانے کو بھی میٹھی میٹھی
دودھ سویاں لائی عید
بچے اللہ کی نعمت ہیں۔ اس عنوان سے امان ذخیروی نے خود کو بچہ بن کر پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ہم بچے بھولے بھالے ہیں
اپنے من کے متوالے ہیں
ہم سے گھر باہر کی رونق
شام سحر دوپہر کی رونق
جہاں ہمارا گزر نہیں ہے
وہاں ہنسی کا ہنر نہیں ہے
بیٹی اللہ کی رحمت ہے۔ ہر بیٹی اپنے پاپا کی پری ہوتی ہے۔ یہ نظم ’’پاپا کی پری‘‘ شاعر کی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
گلشن رضواں کی اے ننھی کلی
ہے معطر تجھ سے گھر آنگن گلی
باپ کی آنکھوں میں تجھ سے نور ہے
ماں بھی تجھ کو دیکھ کر مسرور ہے
تو ہی ان کی زندگی کی ہر خوشی
تجھ سے ہی قائم ہے گھر کی دلکشی
’’میں بنوں گا ڈاکٹر عبدالکلام‘‘کے عنوان سے امان ذخیروی نے بڑی عمدہ نظم تخلیق کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام صرف ہندوستان کے صدر ہی نہیں بلکہ میزائیل مین کے نام سے مشہور تھے۔ ان کا شمار بڑے سائنسدانوں میں ہوتا تھا۔ ہر بچے کو عزم ہونا چاہئے وہ ڈاکٹر عبدالکلام بنے۔ شاعر نے بچوں کے عزم کو اس طرح ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے:
فخر ہے ہندوستاں کو ان پہ آج
جس نے رکھی ہے وطن کی اپنے لاج
اک دن میں بھی کروں گا ویسے کام
میں بنوں گا ڈاکٹر عبدالکلام
علم ایک بڑی دولت ہے۔ علم انسان کو منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ علم کی اہمیت و افادیت کو پیش کرتے ہوئے امان ذخیروی کہتے ہیں:
علم سب سے بڑا خزانہ ہے
علم دولت کا خارخانہ ہے
علم کو کہئے گوہر نایاب
اس کی قیمت کا کیا ٹھکانہ ہے
اس کو جس نے گلے لگایا ہے
جگ میں اونچا مقام پایا ہے
ہر مذہب انسان کو محبت اور بھائی چارگی کا پیغام دیتا ہے۔ شاعر بھی بچوں کے ذریعہ دنیا والوں کو محبت کا پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے:
محبت کی دنیا بسائیں چلیں ہم
ہر اک غمزدہ کو ہنسائے چلیں ہم
بری آنکھ سے ہم کسی کو نہ دیکھیں
نہ اپنی زباں سے بری بات بولیں
کہ سب کو گلے سے لگائے چلیں ہم
محبت کی دنیا بسائے چلیں ہم
ان نظموں کے علاوہ بھی بہت سی نظمیں اس کتاب میں شامل ہیں ۔ ساری نظمیں بچوں کی دلچسپی کے لیے کہی گئی ہیں۔ بہت سی نظموں میں نصیحت اور پیغا م پوشیدہ ہے۔ نظم گنگنا کر بچے اسے یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لئے نظم کے ذریعہ دیئے گئے پیغامات کا اثر بچوں کے دل و دماغ پر گہرا ہوتا ہے ۔ اس طرح امان ذخیروی نے بچوں کے لئے یہ مجموعہ تیار کرکے بڑے فنکارانہ صلاحیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
Leave a Reply