تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!علامہ اقبالؒ کے شعر کا ایک مصرعہ ہے”قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں“
رب کائنات کی حمد و ثناء کا تسلسل ہر وقت جاری رہتا ہے بقول شاعر:.
وہ دور ہو کے بھی نزدیک تر ہے شہ رگ سے
ہمارے قریہ جاں میں قیام اس کا
اس کے زیر نگیں ہیں تمام ارض و سما
ہر اک مقام پہ جاری نظام اس کا
اس کی یاد کے پرتو سے زندگی روشن
یہ میرا دل بھی گویا مکاں اس کا(سعید رحمانی)
اس رب کائنات کی عنایات کس قدر ہیں انسان ان کاشمار نہیں کر سکتا۔نزول قرآن بھی اس رب کائنات کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لیے آفاقی تحفہ ہے جو عرب کے روشن ضمیر آقا حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا۔ بقول شاعر:۔
دنیا کی کتابوں میں قرآن چمکتا ہے
قرآن میں اللہ کا فرمان چمکتا ہے
عادت بنا لے جو تلاوت قرآن کی
اللہ کی نظروں میں وہ انسان چمکتا ہے
عنوان اس قدر عظیم اس پر بہت لکھا لکھنے والوں نے لیکن پھر بھی تشنگی باقی ہے۔تمام شجر قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی تعریف رب کائنات پھر بھی مکمل نہیں ہوتی بلکہ مسلمان میں ایک تمنا باقی رہتی ہے۔بقول شاعر:۔
ارض وسما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے(خواجہ میر درد)
لیکن صد افسوس کہ جدت پسندی کے جنوں میں مبتلا لوگ کس قدر مصروف کہ قرآن مجید کی اہمیت اور افادیت سمجھنے کے لیے فرصت اوقات ہی نہیں۔حالانکہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ مسلمانان عالم کی ایمانی،شعوری اور فکری بنیاد اللہ کریم کی مقدس کتاب ہے۔اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اسی کی اساس پر زندگی کا نظام قائم ہے۔تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن کا راز بھی اس کی روشن تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔قرآن مجید سراپا رشدوہدایت ہے۔اس کا مخاطب چونکہ انسان ہے اس لیے اس کی تعلیمات سے آگاہی ضروری ہے۔بقول شاعر:.
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
عہد ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو مشاہیر اسلام نے قرآن مجید کو سینے سے لگایا تو حکمراں بن گۓ۔اور جو اس کتاب کی برکات سے محروم رہے وہ پستی کے گڑھوں میں گوشہ گمنامی کا شکار ہوۓ۔بقول شاعر:.وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر
اس عہد میں قرآن مجید کی تعلیمات سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سوشل میڈیا کی سرگرمیاں جس قدر انسانی ذہنوں کو متاثر کرتی ہیں یہ بھی ایک المیہ سے کم نہیں۔صدق دل سے روشن اور منور کتاب کی تعلیمات پر توجہ مرکوز رکھنے سے ہی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔اگر ہم نے سرور زندگی حاصل کرنا ہے تو قرآن مجید سے تعلق استوار کرتے اس وقت اس کے ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ کے مفہوم اور مطلب کو سمجھنا ہے۔موجودہ عہد جسے ایجادات کا عہد کہا جاتا ہے قیمتی وقت نکال کر قرآن مجید کی تعلیمات سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔اس عظیم کتاب میں رب کائنات بہت خوب صورتی سے انسان کی رہنمائی اور فوائد قرآن کے حوالے سے خطاب فرماتا ہے۔ترجمہ:۔”لوگو تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آ گئی ہے۔اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھاۓ گا“ (سورة النساء 4)
قرآن مجید زندگی کے مقاصد واضح کرنے اور مقصد حیات اور مقام انسانیت کا مرتبہ بھی بیان فرماتا ہے۔زندگی کی بصیرت کا فلسفہ اور باہمی اتحاد کا مفہوم بیان بھی کرتا ہےاور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ دین نظام زندگی اور طریق زندگی کا نام ہے۔اس کی اصلیت قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات سے آشکار ہوتی ہے۔قدرت کے اعجاز اور مناظر فطرت کے حسن کی رعنائی کا راز بھی مقدس کتاب کی تعلیمات سے عیاں ہوتا ہے۔اس عظیم اور فقید المثال کتاب کی خوبیوں کا تسلسل بہت وسیع ہے۔یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات سے مقصد حیات کی تکمیل ہوتی ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں”مخلوق میں غوروفکر کرنے سے لامحالہ خالق اور اس کی عظمت و جلالت اور قربت کی معرفت نصیب ہوتی ہے“کائنات میں موجود نظام انسان کو دعوت فکر دیتا ہے۔اور مقصد حیات بیان کرتا ہے۔اگر ہم نے عہد حاضر کے مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا ہے تو قرآن مجید کے ترجمہ و تفاسیر سے استفادہ کرتے نہ صرف علم حاصل کرنا ہے بلکہ اطاعت رسولﷺ کے تقاضے بھی پورے کرتے زندگی بسر کرنا ہے۔انسان کی کامیابی کا دارومدار چونکہ فکروعمل کے زاویوں کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے۔اس لیے قرآن مجید کی تعلیمات سے استفادہ کیا جاۓ تو حقیقی کامیابی ممکن ہو پاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ جدت پسندی کے روپ میں لپٹی انسانی زندگی بے شمار مسائل کا شکار ہے لیکن قرآن مجید کی روشن تعلیمات سے استفادہ نہیں کر پا رہے۔مسلمان کو تو غور کرنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:۔قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
رابطہ ۔03123377085
Leave a Reply