تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

قانون کی آنکھیں اور حکمرانوں کا ضمیر

Articles , Snippets , / Thursday, August 1st, 2024

صالحہ نے کوی دسویں بار سوچا کہ قانون کی آنکھیں کیوں نہیں ہوتیں، قانون اندھا کیوں ہوتا ہے؟ ، گھر سے سکول جاتے ہوے رستے میں ہائ کورٹ کی سفید عالیشان بلند و بالا عمارت اپنے اندر ایک عجب سی کشش رکھتی تھی جیسے آپ کو نام لے کے ہولے ہولے اپنی طرف بلا رہی ہو جیسے کسی مقناطیسی کشش کا ہالہ ہو اور آپ کے وجود کو اپنی طرف کھینچ رہا ہو. اور جو مورتی صالحہ کو بہت ہی بھاتی تھی وہ ایک خوبصورت عورت کی سفید مورت تھی ستواں کھڑی ہوی ناک، کتابی چہرہ، پھول کی پنکھڑیوں جیسے نازک ہونٹ سر عبایا سے ڈھکا ہوا ہاتھ دعائیہ انداز میں اوپر کو اٹھے ہوے ہاں ایک بات صالحہ کو بہت ہی عجیب محسوس ہوتی تھی وہ یہ کہ اس حسین دودھیا مورتی کی آنکھیں نہ تھیں یہ محرومی صالحہ کو بہت ہی دکھی اور غمزدہ کر دیتی تھی لیکن وہ ایک نو دس سالہ معصوم سی بچی مورتی کی محرومی پہ کڑھ تو سکتی تھی مورتی کی آنکھیں لگوانے کے خواب بھی بن سکتی تھی مگر درحقیقت مورتی کی آنکھیں چاہ کے بھی نہ لگوا سکتی تھی اور مورتی کی یہ محرومی روزانہ ہی صالحہ کی خوش رنگ صبح کو بدرنگ اور پھیکا کر دیتی تھی اس نے بیسویں بار اپنی دادی اور والدہ سے مورتی کی اس محرومی کے بارے میں پوچھا تھا مگر اسے کبھی بھی کوی تسلی بخش جواب مل نہ پایا تھا. اس کے ہمسائے میں ایک نوبیاہتا جوڑا کراے کے مکان میں چند ماہ پہلے شفٹ ہوا تھا لڑکی کا نام سارہ تھا وہ گوری چٹی، دبلی پتلی پھرتیلی سی لڑکی تھی جو اپنے شوہر کے کام پہ جانے کے بعد بھنبیری کی مانند گھر بھر میں ہی نہیں پورے محلے میں بھی گھومتی رہتی تھی صفائی ستھرائی کی دلدادہ اور کھانے پکانے کے ساتھ ساتھ اپنے پکاے ہوے کھانے دوسروں کو کھلانے کی بھی بہت شوقین تھی اس کا فیشن، اوڑھنے پہننے کا طریقہ سلیقہ اور لوگوں میں گھل مل جانے کا ہنر اسے تمام لوگوں میں ممتاز ہی نہ کرتا تھا بلکہ گرویدہ بھی بنا لیتا تھا اسے محلے میں آے ہوے اور تمام گردو نواح میں خوشیاں بکھیرتے چند ماہ ہی ہوے تھے کہ ایک صبح صالحہ نے دیکھا کہ اس کے محلے میں لوگوں کا جم غفیر صبح ہی صبح امڈ پڑا تھا پولیس کا موبائل بھی تھا سارہ کو بے درد ی سے چھری کے وار کر کے قتل کیا جا چکا تھا پولیس اس کے شوہر کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے لے جا چکی تھی اس کے شوہر کی ماں نے بڑا تگڑا وکیل کیا نیک اور پارسا بہو پہ بد کرداری کی تہمت لگای وکیل صاحب کو منہ مانگے دام دیے اور بیٹے کو عدالت عالیہ نے باعزت بری کر دیا صالحہ کے دل پہ گہری چوٹ لگی اسے انصاف بنانے والوں اور انصاف کی دیوی سے شدید نفرت محسوس ہوی.
صالحہ کو سچ جھوٹ، نیکی بدی، ایمانداری بے ایمانی جیسے تمام رمز و رموز سے مکمل آگاہی تھی اسے اس کی والدہ نے پالنے میں ہی سچ کی عظمت اور جھوٹ کی لعنت کے بارے میں خوب آگاہ کر رکھا تھا اسے پتا تھا کہ جھوٹ سے وقتی طور پر تو نفع حاصل ہو سکتا ہے مگر جیت ہمیشہ سچ ہی کی ہوتی ہے مگر جب اس نے اپنے ارد گرد نفسانفسی، بے ایمانی ،جھوٹ ،ناپ تول میں کمی بیشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، رشوت، سفارش اور اقرباء پروری کو راج کرتے دیکھا اور سچ، ایمانداری اور صراط مستقیم پر چلنے والوں کو صرف صبر اور محرومیوں کے کڑوے گھونٹ پیتے ہی دیکھا تو اسے یہ بات بھی جلد ہی سمجھ میں آ گءی کہ بھلے سچ ہی سیدھا راستہ ہے مگر دنیا میں راج جھوٹ اور جھوٹوں کا ہے اور یہ جھوٹے اتنے زور آور ہیں کہ یہ جو ان کے من میں سماے یہ ڈنکے کی چوٹ پہ کر سکتے ہیں یہ اقربا پروری کو پروموٹ کرتے ہیں اپنے من پسند لوگوں کو اونچے اونچے عہدے پلیٹ میں رکھ کر پءش کرتے ہیں سرکاری کھاتوں پہ ہر طرح کی عیاشیوں سے مستفید ہونا اپنا پیدایشی حق سمجھتے ہیں غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین کے خود سونے کے نوالے منہ میں ڈالتے ہیں اطلس و چاندی کے ملبوسات سے اپنے تن کو سجاتے ہیں ملک کے وسایل کو غیروں کے حوالے کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے وہ ملک جس میں اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت وافر عطا کر رکھی ہے اس کے وسائل پہ صرف چند لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے اور وہ چند لوگ ہیں جن کا نہ ضمیر ہے نہ احساس کہ غریب عوام کیا کھایں گے اور کیا اوڑھیں گے ارے ان بے حس اور بے ضمیرے حکمرانوں کو تو اس بات کا چنداں احساس نہیں کہ بھوکے پیٹ تو نیند بھی نہیں آتی اور بھوکے انسان کی بددعا تو حکمرانوں کے تخت ہلا دیتی ہے روٹی کا عذاب تو تھا سو تھا اب بجلی کے بلوں کا عذاب ایک اور خطرناک شکل میں غریب عوام پہ بہت سارے ٹیکسوں سمیت مسلط کر دیا گیا ہے اور بہت سے سفارشی لوگ اس بجلی سے مفت میں فیض یاب ہو رہے ہیں اور کچھ واہیات تو ایسے ہیں جو کنڈیاں لگا کے بجلی چراتے ہیں اور ان کا بل بھی ہمارے اور آپ جیسوں پہ ڈال کے محکمہ بری الذمہ ہو جاتا ہے نفسانفسی، لوٹ مار کے اس بازار میں جہاں سب ہی اپنے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوں کسی کو کسی کا کچھ احساس نہ ہو وہاں صالحہ جیسے صابر اور صراط مستقیم پر چلنے والے یہ ہی کہہ کے اپنے آپ کو تسلی دے سکتے ہیں کہ جہاں حکمران بے ضمیر ہوں وہاں انصاف کی دیوی اندھی ہی بھلی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International