کبھی بھی تجھ سے شرارت نہیں کروں گا میں
کہ ہو گئی تو وضاحت نہیں کروں گا میں
تمہاری زلفوں کا گاہک زمانہ ہے لیکن
سنو کہ ایسی تجارت نہیں کروں گا میں
پلٹ کے وار کیا تو وہ ہڑ بڑا گیا ہے
اسے لگا تھا کہ جرات نہیں کروں گا میں
اسی لئے تو وہ مسند سے گھورتا ہے مجھے
اسے پتہ ہے بغاوت نہیں کروں گا میں
کہ ڈھال پھینک کے تلوار اٹھائی ہے میں نے
سو اب کسی سے رعایت نہیں کروں گا میں
وہ جانتی ہے ہوس تشنگی کا زیور ہے
وہ جانتی ہے محبت نہیں کروں گا میں
ہزار رنج ملیں تیرے عشق میں مجھ کو
یہ بات لکھ لے شکایت نہیں کروں گا میں
حسین ابن علی درس گاہ ہیں میری
کسی یزید کی بیعت نہیں کروں گا میں
محبتوں کو تواتر سے موڑ دوں گا دوست
امانتوں میں خیانت نہیں کروں گا میں
دو چار شعر لکھوں گا میں ذائقے کے ساتھ
غزل میں آج طوالت نہیں کروں گا میں
عمیر شیری
Leave a Reply