تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

سب اچھا ہے.

Articles , Snippets , / Wednesday, August 7th, 2024

یہ وہ تین لفظی جھوٹ ہے جو دنیا کی ہر زبان میں بکثرت بولا جاتا ہے اور سر عام بولا جاتا ہے اور ہم سب بلا چون و چرا اس فقرے کی صحت پہ شک کرنے کے باوجود بھی اسے طوہا و کرھا تسلیم کر ہی لیتے ہیں کہ یہی دستور زمانہ ہے. پچیس سالہ ماہم نے اپنے سلکی بالوں کو ہاتھوں سے پیچھے کرتے ہوے کوئی دسویں مرتبہ اپنی ماما جانی کو یقین دہانی کروائی کہ ماما جی سب اچھا ہے. میں، اسد اور بچے سب فٹ جا رہے ہیں اسد کا بزنس، بچوں کا سکول اور میری تمام مصروفیات بہترین جا رہی ہیں، ماہم اپنی شادی کے بعد رخصت ہو کے بیرون ملک مقیم شوہر کے پاس شارجہ آ گءی تھی پچھلے چار سالوں سے شارجہ میں ہی مقیم تھی اوپر نیچے تینوں بچے آپریشن سے پیدا ہوے تھے. تین آپریشنز بنا کسی مناسب وقفے کے پھر گھر کے کام کاج تین چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال راتوں کے جگ راتے سونے پہ سہاگہ کہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی juvenile diabetic تھی مشکلیں اتنی تھیں کہ بیان سے باہر مگر ماہم کو جب بھی اس کی ماں فون کرتی وہ اشکوں کو چھپاتے ہوے ماں سے صرف یہ کہہ پاتی تھی کہ ماں سب اچھا ہے اس کی تربیت یا لحاظ کہ کہیں ماں پردیسن بیٹی کے لیے پریشان نہ ہو جاے
وضع داری ہی مات کرتی ہے
ورنہ تو تیر ہے زباں…. اپنی
ایک ہای فای سکول کی co ordinator پرنسپل کے آفس میں سر جھکاے کھڑی تھی new students کے ایڈمیشنز، جاری کلاسز کے مڈ ٹرمز کے نتایج، لایق، نالائق اور درمیانے طالبعلموں کے نہ ختم ہونے والے مسائل، تمام کام گتھم گتھا تھے کسی بھی سلسلے کی کوئی کل سیدھی نہ تھی. مگر نہ ہی co ordinator کو اور نہ ہی پرنسپل کو ان تمام مسائل کے حل سے کوئی غرض تھی کیا بچے پڑھ رہے ہیں یا اساتذۂ کی قابلیت بچوں کو پڑھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں بچوں کے نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے کوئی سایکالوجسٹ کا بندوبست ہے یا نہیں بچوں کے کھیل کود کے مسائل سے نمٹنے کے لیے گیمز کے ٹیچرز پورے ہیں یا نہیں بچوں کی carier counselling کی کوی معقول کمیٹی یے یا نہیں سکول ٹایم میں پڑھای لکھای میں مصروف بچوں کی کسی ایمر جنسی سے نمٹنے کے لیے کوئی ڈاکٹر یا فرسٹ ایڈ میں تربیت یافتہ پیرا میڈیکل سٹاف موجود ہے یا نہیں وہ بچے جو شرمیلے ہیں ذرا کم گو ہیں ان کی سننے والے اس سکول میں ہیں یا نہیں کسی کو کسی اہم معاملے کی نہ غرض تھی نہ پروا ہاں پرنسپل کو صرف پروا تھی تو اس بات کہ کہ سکول میں پانچ ہزار طالبعلموں کی فیسوں کی رسیدیں کہاں ہیں اور coordinator کو بھی طالبعلموں کی کسی قسم کی تعلیم یا فلاح سے کچھ سروکار نہ تھا اس نے بھی کلرک سے تمام فیسوں کی ادای کی رسیدیں لے کر پرنسپل کو دے کر اپنی جان چھڑای اور دونوں خواتین اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کے یہ جا وہ جا اب طالبعلموں نے اپنے نتائج کو اے یا اے پلس سے کیسے سجانا ہے وہ جانیں ٹیوشن اکیڈیمیاں جانیں یا پھر بچوں کو پیداکرنے والے مظلوم والدین جو اپنی جیبیں ڈھیلی کرتے کرتے کنگال ہی ہو جاتے ہیں. مگر یہاں coordinator اور پرنسپل نے یہ کہہ کے اپنی اپنی جان بخشی کروا لی کہ سب اچھا ہے جب کہ کچھ بھی اچھا نہ تھا.
ایک ڈاکخانے میں اپنے پارسل، خطوط، روپے اور ضروری دستاویزات پوسٹ کروانے والے پچھلے ایک گھنٹے سے ایک کاو نٹر سے دوسرے کاونٹر پہ دھکے کھاتے پھر ریے تھے سماویہ اپنی بیٹی کے ضروری کاغذات اسے بیرون ملک پوسٹ کرنے آی تھی سب سے پہلے تو جس چیز نے اسے حیران کیا وہ عملے کا انتہائی بگڑا ہوا رویہ تھا وہ لوگوں کا کام یوں کر رہے تھے گویا ان پہ احسان کر رہے ہوں اور حقیقت میں وہ کام نہیں کر رہے تھے وہ سب مردے تھے سانسیں لیتے ہوئے مردے ان کی تنخواہیں فکس تھیں وہ بھلے کام کرتے یا نہ کرتے انھیں اس سے کوئی سروکار نہ تھاایک معذور بزرگ کءی گھنٹوں سے اپنے بل جمع کروانے کے لیے ادھر سے ادھر اپنی وہیل چیر پہ دھکے کھاتا پھر رہا تھا اگست کی شدید گرمی اور حبس نے جانے کب اس کا شکار کیا اور وہ بھرے مجمعے میں مردہ پوسٹ آفس کے سانس لیتے ہوے جم غفیر میں سے سچ مچ ہی آسمانوں کی طرف پرواز کر گیا اس بے ہدایتے نظام کو جاتے جاتے کچھ بتانے کی کوشش اس نے ضرور کی تھی مگر اندھے، بہرے اور گونگے نظام کے صرف سانسوں کے بل پہ رواں مردے اس اپاہج بوڑھے کے دکھ کرب کو کیسے جان پاتے جو گھر میں جوان بیوہ بہو اور پانچ سالہ پوتے کو گھر وآپسی پہ دال چاول پکا کے کہہ کے بل جمع کرواتے ہوئے حرکت قلب بند ہو جانے سے دنیا کے سارے ہی وخت سیاپوں سے نجات پا گیا تھا.مگر ڈاکخانے کی انچارج خاتون نے اس واقعے کا تو ذکر ہی نہ کیا تھا اور اپنی یومیہ رپورٹ میں سب اچھا ہے لکھ کر نیچے اپنے دستخط کر دیئے تھے.
کہانی انسانوں، گھروں، اداروں، دیہاتوں، قصبوں، شہروں اور ملکوں سے ہوتی ہوئی اب سمندر پار تلک جا پہنچی ہے نہ ملکی انتظامات درست چل رہے ہیں نہ ہی حکومت کے کام دھندے مگر دن کے خاتمے پہ رپورٹ ہمیشہ یہی تیار ہوتی ہے کہ سب اچھا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی ماڈرن سکول کے اگر سارے طالب علم بھی فیل ہو جایں تو رپورٹ میں یہی لکھا جاتا ہے کہ سکول کی کارکردگی انتہائی اچھی رہی مطلب سب اچھا ہے.
اس عہد بے مروت
اس ساعت حزن میں
مجھے سہنا پڑ گیا ہے
یہ کہنا پڑ گیا ہے
سب ٹھیک ہے خدارا
سب اچھا ہے سب اچھا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
nature drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International