زندگی میں ہنسنا کتنا ضروری ہے؟ شاید اتنا ہی جتنا سالن میں نمک یا زندگی کی شب و روز میں خوشبو کا لمس۔ زندگی کے ہزاروں رنگ ہیں، اور ہر رنگ کسی نہ کسی احساس سے جڑا ہوتا ہے۔ مگر ہم ہر رنگ کو اپنی زندگی میں محسوس نہیں کر پاتے۔ ان رنگوں میں ایک ایسا احساس بھی ہے جو انسان کے وجود کے آغاز سے اس کے ساتھ ہے—رونے کا احساس۔ یہی احساس جب عمل میں آتا ہے تو دنیا ہمیں اس کے متضاد یعنی ہنسی کی جانب لے جانے کی تَگ و دَو میں لگ جاتی ہے۔ ہنسی کا یہ سفر بلاشبہ اس جہان کے سب سے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے، اور یہ اس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب آپ اپنی ذہنی بلندی، سنجیدگی، اور حالات کی تلخیوں کے ساتھ زندگی کا سامنا کر رہے ہوں۔ ایسے میں ایک چٹکی بھر مسکان بھی خدا کی عنایت ہوتی ہے، اور ہنسانے والا کوئی فرشتہ۔
اگر میں کہوں کہ اس عہد میں ایک ایسی شخصیت موجود ہے جسے اللّہ نے اس نعمت سے مالامال کیا ہے، تو آپ یقیناً میری بات سے متفق ہوں گے۔ جی ہاں، میں بات کر رہی ہوں ڈاکٹر سید اعجاز الدین کی، جنہیں دنیا پاپولر میرٹھی کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں، مگر کہانی ہمیشہ انہیں کی لکھی جاتی ہے جنہوں نے اپنی انفرادیت اور ہنر سے زمانے میں اپنی شناخت بنائی ہو۔
9 اگست 1956 کو میرٹھ کے ایک ادبی اور باوقار گھرانے میں جنم لینے والے اعجاز الدین نے اردو ادب میں اپنی شناخت کو اس مقام تک پہنچایا جہاں ان کا نام طنز و مزاح کی دنیا میں ایک درخشاں ستارہ بن چکا ہے۔ آپ نہ صرف ایک فعال طنز و مزاح کے شاعر ہیں بلکہ اس میدان میں آپ کی خدمات کا دائرہ ہندوستان سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ ملک و بیرون ملک، جہاں کہیں بھی اردو زبان بولی، سمجھی، یا لکھی جاتی ہے، وہاں پاپولر میرٹھی کا نام طنز و مزاح کی پہچان بن چکا ہے۔
پچاس سالہ شاعری کے سفر میں آپ نے ایسے اَنمِٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ آپ کے ہم عصر کوئی آپ کے برابر نظر نہیں آتے۔ آپ کی شاعری سنجیدہ کلام کے گداز سے تھکے دلوں پر قہقہوں کی برسات کرتی ہے۔ “ہنس کر گزار دے” اور “ڈبل رول” جیسے آپ کے شعری مجموعے طنز و مزاح کی دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی تصانیف آپ کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ہندوستان، سعودی عرب، امارات، امریکہ اور دیگر کئی ممالک کے مشاعروں میں سنجیدہ شاعری کی گہری کیفیات کے بعد جب آپ کا مزاحیہ کلام شروع ہوتا ہے، تو فضا قہقہوں اور مسرتوں سے گونج اٹھتی ہے۔ پاپولر میرٹھی کا یہ منفرد رنگ انہیں اس عہد کا سب سے کامیاب اور ہر دلعزیز مزاحیہ شاعر بناتا ہے۔ آپ کی شخصیت اور کلام دونوں ہی ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہنسی انسان کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، اور اسے بانٹنے والا واقعی فرشتہ ہوتا ہے۔
پاپولر صاحب کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں!
پاپولر میرا تخلص ہے یہی اعجاز ہے
میرا جو بھی شعر ہے دنیا میں سرفراز ہے
آپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میں
ذہن میرا نوکِ نشتر کی طرح ممتاز ہے
میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
تیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے
میں تو شاعر ہوں مرا دل ہے بہت ہی نازک
میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے
پاپولر میرٹھی
گزشتہ ماہ 27 اکتوبر کو آپ کی ایک نئی تخلیق “یادوں کے دریچے” منظرِ عام پر آئی۔ یہ پاپولر میرٹھی کی پہلی نثری تصنیف ہے، جو فرحت اللّہ بیگ، مولوی عبدالحق، مجتبیٰ حسین، سعادت حسن منٹو، کنہیا لال، اور مشتاق احمد یوسفی جیسے عظیم انشائیہ نگاروں اور ادیبوں سے متاثر ہو کر تخلیق کی گئی ہے۔
“یادوں کے دریچے” کے بہترین مضامین اور دل افروز کہانیاں ہمیں معاشرے کے ان گوشوں کی سیر کراتی ہیں جو ہر روز ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن اکثر ہماری توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف پاپولر میرٹھی کے فنِ تحریر کا آئینہ دار ہے بلکہ قارئین کو معاشرتی پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔
پاپولر میرٹھی کی “یادوں کے دریچے” کی اشاعت، ممتاز مزاح نگار، نثر نگار اور نقاد فیاض احمد فیضی کی حوصلہ افزائی کا ایک بہترین نتیجہ ہے۔ یہ کتاب ان کی رہنمائی اور پاپولر میرٹھی صاحب کی انتھک محنت کا ثمر ہے، جو اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔
“یادوں کے دریچے” کی اشاعت پر پاپولر میرٹھی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ ان کی اس کامیابی پر ہمیں فخر ہے، اور ہم دعاگو ہیں کہ وہ آئندہ بھی ادب کے افق پر اپنی تحریروں کا جادو بکھیرتے رہیں۔
تشکر
از قلم:
پروین شغف
Leave a Reply