عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب چیمپینز ٹرافی 2025 کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی تھی ، تب ہی ہمارے دوست بدھو میاں نے کہہ دیا تھا کہ خدا خیر ہی کرے ، یہ انڈیا کوئی نہ کوئی پخ ضرور ڈالے گا ۔ اور آخر کار انڈیا نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس بات کا آخری لمحات میں اظہار کی وجہ یہی ہے تاکہ پاکستان کو میزبانی بچانے کے لئے مجبوراً ہائبرڈ نظام کو طوہاً و کرہاً قبول کرنا پڑے۔
انڈیا نے اپنے ملک کے تمام مقابلوں میں پاکستان کو بلانے اور خود پاکستان نہ آنے کی ضد پر قائم رہ کر خود کو ایک ایسی روٹھی محبوبہ سمجھ لیا ہے ، جو صرف یہ چاہتی ہے کہ محبوب اس کی ہر فرمائش پوری کرتا رہے ، اور وہ خود ناز نخرے دکھاتی رہے اور اٹھلاتی رہے ۔ ویسے بھی ان محبوباؤں نے اچھے اچھے عاشقوں کو کبھی نہر نکالنے ، کبھی بھینسیں چرانے اور کبھی جنگلوں کی خاک چھاننے پر مجبور کیا ہے۔ اب انڈیا بھی پاکستان کو یونہی ہائبرڈ نظام میں رکھ کر کھیلنا چاہتا ہے ۔ آئی سی سی وہ پیسہ بھی نہیں کھونا چاہتی جو اس میچ سے حاصل ہوگا ، کیونکہ انڈیا پاکستان میچ ہمیشہ سے فائدہ کا سودا ہی رہا ہے ۔ اور ساتھ ہی آئی سی سی انڈیا کی کٹھ پتلی بن کر بھی رہنا چاہتی ہے ۔ سو آئی سی سی چچا کیدو کے کردار کو بخوبی نبھا رہی ہے ۔
کوئی آئی سی سی سے پوچھے کہ جب باقی تمام ممالک کو پاکستان آ کر کھیلنے پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ کوئی ڈر۔ جس کا ثبوت پاکستان میں مختلف سیریز کا انعقاد ہے اور خاص طور پر انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی سیریز کا کامیاب انعقاد ہے۔ تو ان انڈینز کا ہم پاکستانیوں نے کیا کر لینا ہے۔ سوائے اس کے کہ ان انڈین کھلاڑیوں کو ان کی توقع سے زیادہ محبت دے دینی ہے ۔ اب چاچا کیدو روٹھی محبوبہ کو راضی کرنے کے بجائے ہمیں ہی زور دے کر کہہ رہا ہے کہ محبوبہ کی مان کر عاشق صادق ہونے کا ثبوت دے دو۔ اور ہائبرڈ پیار پر ہی گزارہ کر لو ۔ جس کے لئے خوب خوب دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔ اور دھمکیاں بھی کہ ہم کوئی دوسرا عاشق ڈھونڈ لیں گے چمپینز ٹرافی کروانے کے لئے ۔ اب دیکھیں چاچا کیدو کامیاب ہوتا ہے یا عاشق اس بار محبوبہ کر راضی کر لے گا جس کے امکانات بہت کم ہیں ۔
بدھو میاں کہتے ہیں کہ اسی لئے تو ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ سیاست دور کرنے اور لڑانے کا نام ہے ، اور کھیل و ادب پاس لانے اور ملانے کا نام ہے ۔ اگر آپ کھیلو گے تو قریب آؤ گے اور سیاست کرو گے تو دور ہی رہو گے۔ ویسے بھی چانکیہ کے اصول پر چلنے والے ہمسائے کو کم ہی اہمیت دیں گے ، کیونکہ ان کی سیاست میں ہمسائے سے نفرت ووٹ کمانے کا بہترین طریقہ ہے ۔ ویسے بھی نفرت کی سیاست عام ذہن کو متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
بدھو میاں کا ماننا ہے کہ خوب سیاست کرو ، لیکن کھیل و ادب کو اس سے آزاد رہنے دو ۔ کیونکہ ہر دو ممالک کے شائقین ان کھلاڑیوں کو ہمیشہ سے اپنے اپنے ملک کے اسٹیڈیمز میں کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔
بدھو میاں تو ابھی تک ہائبرڈ نظام کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ان کو لگتا ہے انڈینز کسی دوسرے ملک میں ہارنے پر شائد اتنے ناخوش نہ ہوں جتنا پاکستان میں ہار کر ناخوش ہو ں گے ۔ لیکن ایشیز میں انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی تو کھیلتے ہیں ۔ اور ان کے شائقین کے درمیان بھی ایسا ہی اظہاریہ ہے کہ ہمارا ملک نہ ہارے، دونوں ممالک خوب تگڑا مقابلہ بھی کرتے ہیں ۔ اور ہارنے پر خوب خوب اپنے کھلاڑیوں پر غصہ نکالتے ہیں۔ لیکن کبھی ایک دوسرے کے ملک میں جا کر کھیلنے سے انکار نہیں کرتے ۔ تو چاچا کیدو ان کے لئے بھی ہائبرڈ نظام کیوں منتخب نہیں کرتے ؟ وہ میچز بھی ہائبرڈ نظام میں کروا لیا کریں ۔ بلکہ ایشیز ہی کیا تمام ممالک کے میچز ہی ہائبرڈ کر لیں ۔ اور اس کے لئے انٹارکٹیکا میں کئی گراونڈز تعمیر کروا لیں ۔ پھر سارے میچز وہاں کروا دیا کریں ، تاکہ نہ کوئی کسی کے ملک جائے گا اور نہ پھر کوئی سیاست ہو گی ۔ مگر بدھو میاں کہتے ہیں دیکھ لیجیے گا یہ سیاست دان وہاں بھی سیاست کرنے پہنچ جائیں گے اور نیا نظام ڈائپر لے آئیں گے کہ ہمارے بچوں کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے اس لئے میچز افریقہ کے جنگلوں میں کروائے جائیں ۔
Leave a Reply