تازہ ترین / Latest
  Thursday, January 30th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

آ دیکھ تو ہر چہرے پہ ہی گرد جمی ہے

Articles , Snippets , / Wednesday, January 29th, 2025

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاگو بھاگو بھاگو میونسپلٹی کے محکمہ کا چھاپہ پڑ گیا ہے ۔بازار میں ہلچل مچ گئی ، کچھ دکانیں فوراً بند ہونے لگیں ، کچھ دکانیں اپنی ناجائز تجاوزات ختم کر کے اپنی حدود میں واپس جانے لگیں ۔ ناجائز کھڑی ریڑھیاں یکدم راستے سے ہٹنے لگیں اور بازار کا راستہ جو کچھ دیر پہلے مکمل تجاوزات کے نرغے میں تھا یکدم صاف ہونے لگا ، اور کچھ ہی دیر میں بازار کی گلی یوں اِن تجاوزات سے صاف ہو گئی جیسے یہاں کبھی ناجائز تجاوزات کا نام و نشان ہی نہیں تھا ۔ بدھو میاں حیرت سے سب یہ دیکھ رہے تھے اور پریشان تھے کہ کچھ دیر پہلے اس گلی سے ایک آدمی کے گزرنے کی بمشکل جگہ تھی ، اور اب چند ہی منٹوں میں اس گلی سے پوری گاڑی آرام سے گزر سکتی ہے ۔ بدھو میاں نے ہماری طرف دیکھا اور کہا اتنی چوڑی گلی کا کیا حال بنایا ہوا تھا ۔ ہم نے ہنستے ہوئے کہا ، بس کچھ دیر رک جائیں اور میونسپلٹی کا چھاپہ ختم ہونے دیجئے ۔ چھاپہ ختم ہوتے ہی وہی پہلے والا منظر پھر آپ کے سامنے ہو گا ، اور واقعی چند لمحوں بعد وہی منظر ہمارے سامنے تھا جہاں اب بمشکل ایک آدمی کے گزرنے کی جگہ نظر آ رہی تھی ۔ بدھو میاں انتہائی افسوس سے کہنےلگے ہم ہر بات حکومت کی ذمہ داری پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں، لیکن حال یہ ہے کہ ہم خود موقع ملنے پر اپنی حد تک ہر ناجائز کام جائز سمجھ کر ہی کرتے ہیں ۔ حکومت نے ہر دکان کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے، اور ریڑھیوں کو مخصوص جگہوں پر ریڑھی لگانے کے اجازت نامے جاری کر رکھے ہیں، لیکن پھر بھی ناجائز دکان بڑھا کر اور راستے میں ریڑھیاں کھڑی کر کے نا صرف قانون توڑ جا رہا ہے بلکہ اسلام کے سب سے اہم سبق ” رازق اللہ ہے ” سے بھی یہ کہہ کر انکار کیا جا رہا ہے کہ اگر قانون نہ توڑیں جائے اور ناجائز تجاوزات نہ کی جائیں تو رزق ہم تک نہیں پہنچے گا ۔ ہم نے کہا بدھو میاں اتنے سنجیدہ نہ ہوں یہ سب کاروبار حکومتی اہلکاروں کی ناک کے نیچے ان کی مرضی سے ہی جاری ہے اور وہ سب جانتے ہوئے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ بدھو میاں کہنے لگے آنکھیں بند کئے نہیں بیٹھے ، بلکہ رشوت کے پیسوں نے آنکھیں بند کر دی ہیں ۔یہ چھاپے بھی بس کبھی کبھار عوام کو دکھانے یا رشوت کا بھاؤ بڑھانے کے لئے ہوتے ہیں جس کا کوئی اثر بہتری پر نہیں پڑتا ، پھر فرمانے لگے اصل بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس وقت گراوٹ کا شکار ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ اخلاقی اقدار کے زوال میں مضمر ہے ۔ ہمارا اخلاقی معیار بس یہ رہ گیا ہے کہ دوسرے کو غلط اور خود کو درست ثابت کریں۔ ہم اپنی غلطیوں کی دس تاویلیں نکال لاتے ہیں اور دوسرے کی ایک غلطی پر سزا پر زور دیتے ہیں۔ محکمے کرپشن کی دلدل میں اس قدر دھنس چکے ہیں کہ اب وہاں رشوت کو جائز سمجھنے لگے ہیں، اور رشوت کا نام تو چائے پانی رکھ کر اس کو حق ہی سمجھنے لگے ہیں۔ تمام محکمے کام نہ کرنے کی تنخواہیں لے رہے ہیں ۔ صفائی کے اپنے محکمے میں صفائی کی ضرورت ہے۔ ہر طرف سڑکوں کے اطراف میں پھیلا کچرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت تمام محکموں کے بجٹ کا آڈٹ کرائے کہ اتنا بجٹ جو خرچ ہوتا ہے ، کہاں جا رہا ہے؟ اور اس کچرے کو صاف کرے جو ان محکموں کے صاف چہروں پر گرد کی طرح جم چکا ہے ، لیکن پوچھے کون؟، کیوں کہ سب تو اس معاشرے کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش میں ہیں جس کا معیار اب منافقت رہ گیا ہے۔ لوگ جگہ جگہ فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لئے مخصوص جگہوں پر ناجائز تجاوزات دیکھ کر چپ ہیں ، کیونکہ اب سب نے یہ قبول کر لیا ہے کہ یہ معاشرہ ایسے ہی چلے گا۔ کیا یوں پیدل چلنے والوں کی جگہ بند کر کے کاروبار کرنا عین اسلام کے مطابق ہے؟ ، سوال ہونے پر پھر غربت کی توجیہات لائی جاتی ہیں ، تو جناب کیا ترقی یافتہ ممالک یا جہاں قانون کی حکمرانی ہے وہاں غربت آپ کو قانون توڑنے کا اختیار دیتی ہے؟ اس کے لئے عوام کی قائم تنظیمیں حکومت پر زور دیتی ہیں کہ کاروبار کے مواقع سب کے لئے مہیا کیے جائیں ۔ سو موجودہ صورتحال پر اب حکومت بھی خوش ہے کہ یونہی نظام چلنے دیں ، ایسے ہماری ذمہ داری پر سوال بھی کوئی نہیں اٹھائے گا اور عوام اگر تنگ بھی ہو تو یہ عوام یوں ہی بھیڑ بکریوں کی طرح زندگی گزارنے کی عادی ہو چکی ہے ۔ دکانوں کے آگے کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ خود مارکیٹ کمیٹی یہ کام نہیں کرتی کہ صفائی تو نصف ایمان ہے ، تو آپس میں سب مل کر اس کی صفائی کروا دیں ، تاکہ ان کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو گا اور دین کے اصول پر عمل بھی ہو جائے ۔ الٹا ابلتی نالیاں بکھرا کچرہ گاہکوں کا استقبال کر رہا ہوتا ہے اور تاجروں کے کانوں پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی جبکہ اس طرح کے حالات میں کاروبار کرنا ان کی اپنی صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ سو نہ حکومت کچھ کرنے کو تیار ہے نہ ہم خود اپنی حالت بدلنے کو تیار ہیں ، اور مثال یورپ کی دیتے ہیں کہ کتنی صفائی ہے، جبکہ وہاں تاجر تنظیمیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ گاہکوں کو ایک بہتر ماحول دیا جائے تاکہ کاروبار میں اضافے کیساتھ ساتھ ماحول بھی بہتر رہے۔ بدھو میاں بولے جا رہے تھے ، مزید کہنے لگے اس سے انکار نہیں کہ مسائل کا حل حکومت وقت کی ذمہ داری ہے لیکن اس پر عمل کروانے کےلئے جدوجہد کس کی ذمہ داری ہے؟ محکموں میں کرپٹ افراد نے ماحول گندہ کیا ہوا ہے لیکن اس کی حوصلہ شکنی کس کی ذمہ داری ہے؟ ہر پانچ سال بعد ووٹوں کے لئے بنا سوچے لائن میں لگنے والی قوم اس وقت ان سب میں بہتری کی شرط کیوں نہیں رکھتی ہے؟ اس پر عملدرآمد نہ ہونے پر حکومت کی گرفت کیوں نہیں کرتی ہے؟ ، کیا حکومت کیساتھ ساتھ ہم بھی تو اس بدعنوانی، بے راہ روی کا حصہ تو نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم کو بھی ایسی حکومت چاہیے جو ہماری ناجائز تجاوزات پر آنکھیں بند رکھے، جو ان کرپٹ افراد کو محکموں میں بھرتی رکھے کہ ہمارا کام رشوت سے چلتا رہے، جو ہماری ناجائز منافع خوری پر سوال نہ کرے، جو ہمارے گوداموں میں زخیرہ اندوز کی گئی اشیاء پر سے صرف نظر کرے ، جو حکومت اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بدعنوانی کرنے کے مواقع مہیا کرتی رہے۔ بدھو میاں نے طویل سانس لی اور کہنے لگے ، صرف حکومت نہیں ہم خود بھی جواب دہ ہیں کیا ہم واقعی ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ہمارے یہ سب ناجائز کام بند کروا دے؟ کیا ہم قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں؟ کیا ہم رشوت بند کروانا چاہتے ہیں؟ اگر واقعی چاہتے ہیں تو پہلے خود کو بدلئے، پھر ایک متحد جدوجہد سے نظام خودبخود بدل جائے گا ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International