Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ابا کا سرگودھا تبادلہ۔

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Friday, April 11th, 2025

rki.news

{ابا کا سرگودھا تبادلہ۔ ہماری ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز۔ میر آف خیرپور کے یہاں بیٹے کی ولادت۔ ڈاکٹر تنویر عباسی کا ہمارے ایک شعر کو بڑا شعر قرار دینا}۔

سن ساٹھ کی دہائی کا یہ دور تھا۔ اسی دوران ابا اسٹنٹنٹ انفارمیشن آفیسر ہوکر سرگودھا پوسٹ ہوگئے۔ اسٹیشن پر ابا کے دوست، خیرپور میرس کے شاعر ادیب سب الوداع کہنے موجود تھے۔ اس زمانے میں چھوٹے سے شہروں میں رہنے والوں کے دل بڑے ہوتے تھے۔ خلوص و مہر و مروت سے لبریز۔
مجھے آج بھی یاد ہے 1973 میں اپنی ائر فورس کی ٹرینگ کے دوران کوہاٹ کے شاعروں ادیبوں نے میرے ساتھ جس خلوص و محبت کا برتاؤ روا رکھا اس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں باقاعدگی سے شعری نشستیں منعقد کرنا ساتھ ہی روائیتی مہمان نوازی، بھلائے نہیں بھولتی:

اسی زمانے کی غزل کا ایک شعر:

ہیں کشادہ دل بہت اس کے مکیں
تنگ ہے یوں گھر کی انگنائی بہت
(ف ن خ)
ابا سرگودھا سدھار گئے اور ہم نے ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہم عمر احباب کی بزمِ شعر و ادب بناڈالی۔ ہر ہفتہ کسی صاحبِ حیثیت شخص کے گھر بیٹھک ہوتی۔
زندگی کچھ زیادہ ہی مصروف ہوگئی تھی۔ کالج، ٹیوشن پڑھانا، ہفتہ کے دو دن پبلک لائبریری اور مشاعرے۔
ہمارے بڑے تائے میر آف خیر پور کے دفتری امور کے نگراں تھے۔ ایک روز دفتر سے واپس آئے تو بڑے افسردہ تھے۔ ابا سے کہنے لگے کہ اللہ کی حکمت اللہ ہی جانے آج ہمارے بیٹے اور ہزہائینس کے بیٹوں کی ولادت ہوئی فرق صرف اتنا کہ ہمارے بیٹے کے یہاں مردہ بچہ ہوا اور ہزہائینس کے زندہ۔۔
مجھ پر اس واقعے کا بہت اثر ہوا۔ میں نے اسی روز درجِ ذیل غزل کہی جس کے اشعار میں یہی تضاد ہے:

جلو میں لے کے سحر رات کا کفن آئی
قضا کے ساتھ پیامِ حیاتِ نو لائی

جلی جو شمع پتنگوں نے زندگی پائی
بجھا جو چاند ستاروں کی جاں میں جاں آئی

کبھی ہوئی جو چمن میں لہو کی ارزانی
بڑھی بہار کے چہرے کی شانِ رعنائی

افق پہ خونِ شہیداں کی دیکھ کر سرخی
شبِ سیاہ کی بڑھنے لگی توانائی

عجب نظام جہاں ہے ازل سے یہ خسروؔ
کسی کی موت، کسی کا پیامِ جاں لائی

والد صاحب کی عدم موجودگی میں ہمیں خیرہور کے مشاعروں اور گھریلو شعری نشستوں میں شرکت کا خوب موقع ملا۔ کبھی باقاعدہ بلاوے اور اکثر و بیشتر بغیر دعوت نامے کے ہم شرکت کرنے لگے۔ اسی دوران ایک مشاعرے میں ہم نے اپنی یہ تازہ غزل پڑھی۔ اس مشاعرے میں شہر کے سبھی معروف شعراء اور سخن فہم حضرات موجود تھے۔ حکیم وجہیہ الحسنین، مولانا شبیہ الحسنین، پروفیسر منظر ایوبی، پروفیسر عبداللہ جاوید۔ڈاکٹر تنویر عباسی، زخم بدایونی، نیر میرٹھی، صوفی سبطین، رضوان صدیقی، منظر اکبر آبادی، مزاح گو مذاق، اور یہ خاکسار فیروز ناطق خسروؔ۔ معززینِ شہر تعظیم حسین نقوی، ڈاکٹر نقوی، ڈاکٹر رضوی، علی اسلم جعفری، حسنین پاشا وغیرہ۔ مشاعرے کا آغاز حسبِ سابق ہم سے ہوا۔
ہم نے اپنی یہی تازہ غزل پڑھنا شروع کی جب یہ شعر پڑھا:
“جلی جو شمع پتنگوں نے زندگی پائی
بجھا جو چاند ستاروں کی جاں میں جاں آئی”

تو ڈاکٹر تنویر عباسی نے ہاٹھ اٹھا کر کہا میں اس شعر کو عظیم شعر قرار دیتا ہوں اگر ایک چاند کے بجھنے سے ہزاروں ستاروں میں جان پڑ جاتی ہے تو اس چاند کو مرجانا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ تمام شرکاء نے واہ وا، سبحان اللہ کہہ کر خوب داد دی۔۔ اس مشاعرے کے بعد ہمیں باقاعدہ دعوت نامہ دے کر مدعو کیا جانے لگا اور ہماری شہرت ایک نئے انداز کے شعر کہنے والے ایک نوجوان شاعر کی حیثیت سے پھیلنے لگی۔ اسی اثنا میں والد صاحب کا تبادلہ سرگودھا سے بطور انفارمیشن آفیسر واپس خیرپور میرس ہوگیا۔ والد صاحب کو ابھی ہمارے شاعر ہونے کو تسلیم کرنے میں عار تھا۔ ایک مشاعرے کا دعوت نامہ ان کے اور ہمارے نام الگ الگ آیا لیکن ہمیں شرکت کی اجازت نہیں ملی اور والد صاحب خود روانہ ہوگئے۔ ہمیں بہت رنج اور غصہ بھی تھا جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا ہمارے طیش میں اضافہ ہی ہورہا تھا۔ آخر والد صاحب کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم بے شک ابھی طالب علم ہیں لیکن بحیثیت شاعر ہمارا بھی کوئی مقام ہے۔ والدہ نے دلاسہ دیا کہ چند روز کی بات ہے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ جیپ میں سوار ایک صاحب مشاعرہ گاہ سے تشریف لائے تھے۔ (جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International