ابھی مَرنا نہیں مُجھ کو!
ابھی کچھ کام باقی ہیں
میں جیسا اس جہاں میں آیا، ویسا جانا چاہوں گا
میں خالی ہاتھ، خالی دِل سے جاؤں گا
جو دنیا نے سکھایا وہ یہیں پر چھوڑ جاؤں گا
جہاں پر نفرتوں کے بیج انجانے میں بوئے تھے
وہاں جا کر تَلَف کر لوں تو میرا کام پورا ہو
محبت کو جہاں بے لوث بانٹا تھا
وہاں سے واپسی کا بھی تقاضا حق تو بنتا ہے، وہ کرنا ہے!
محبت کا تقاضا ہے
کسی کی آبروئے ترکِ الفت کا بھَرَم رکھنا
کسی کی شامِ تنہائی کی خاطر اب تَکَلُّف کی فصیلیں توڑ کر آزاد ہونا ہے
کسی کو یاد سے آزاد کرنا ہے
کسی کو بُھول جانا ہے
کئی لمحوں، کئی سانسوں کا مجھ پر قَرْض واجب ہے اُسے بھی تو چُکانا ہے
کئی ذہنوں پہ میرے عارضی یا دائمی جو نقش ہیں اُن کو مِٹانا ہے
جو میرے ذہن پر کُچھ عَکْس ہیں ان کو ہٹانا ہے
یہ جذبے اور یادیں
اس جہانِ زار کی آلائشیں ہیں اور یہیں پر چھوڑنی بھی ہیں!
حِسابِ وعدہ و اُمید بھی بے باق کرنا ہے۔
ابھی لَہجوں میں شامِل زہر کو تریاق کرنا ہے
ابھی مَرنا نہیں مُجھ کو
ابھی اِک کام باقی ہے
ابھی جو مُجھ کو اپنے واسطے جِینے کی خواہش ہے!
وہ باقی ہے!
سلیم کاوش
Leave a Reply