تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اخلاص نیت

Articles , Snippets , / Thursday, July 11th, 2024

محمد طاہر جمیل دوحہ قطر
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ۔ یہ ہر عمل کی اساس اور بنیاد ہے۔
حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
اخلاص نیت یہ ہے کہ اپنا قول و عمل صرف اللہ واحد کی ذات کے لیے ہو اس میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرے ۔ اخلاص کے لفظی معنی خالص کرنے کے ہیں دراصل یہ اس نیک کام کو کہتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے ریا و نمود اور اپنی دنیاوی غرض ، شہرت حاصل کرنا یا معاوضہ کمانا ہرگز نہ ہو۔
سورة الزمر: آیت 2 میں اللہ فرماتے ہیں۔
(یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت دل سے اور خلوص اعتقاد سے کرو۔ نیت میں اخلاص جتنا زیادہ ہوتا ہے بندہ اتنا اللہ کے قریب ہوتا ہے اور جتنا قریب ہوتا ہے اتنا ہی عاجز ہوتا ہے۔
رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر تم نہیں دیکھتے تو وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے۔ اخلاص بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ جس نے اخلاص کو پا لیا اس نے گویا نفس کو قابو کر لیا اور جس نے نفس کو قابو کر لیا اُس نے اللہ کو راضی کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کائنات میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگر ایمان میں اخلاص نہیں تو وہ نفاق ہے ۔ مشرکین و منافقین کو اس لیے برا کہا جاتا ہے کہ وہ نیک کاموں میں ریا و نمود کے طور پر دوسروں کو بھی شریک کر لیا کرتے تھے۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘(راہ مسلم)
حدیث میں ہے کہ اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے، لیکن اس کی غرض یہ ہے کہ لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقیناً اس کی یہ نمازیں ضائع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ ہر عمل کے مقبول ہونے کے لیے نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے۔
ایک طویل حدیث مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں اﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔
خلاصہ یہ کہ ایک شہید سےپوچھا جائے گا کہ تم نے ﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یااﷲ! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور اپنی جان قربان کرکے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔ تو اﷲ کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہوگا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔ اور پھر اسے بھی جہنّم میں ڈالنے کا حکم صادر ہوگا۔
اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہوگا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنا مال و دولت خرچ کرتا اور ان کی ضرورتوں میں کام آتا تھا، ﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنّم میں ڈال دیا جائے گا۔ اخلاص یہ کہ بندہ کے اعمال ظاہر و باطن ہر دو صورت میں برابر ہوں، ریاکاری یہ ہے کہ بندے کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہوں۔ بزرگان دین کا کہنا ہے ”لوگوں کی وجہ سے عمل ترک کردینا ریاکاری اور لوگوں کی خاطر عمل کرنا شرک ہے”
ایک حدیث کا مفہوم ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ کہ پہلے زمانے کے تین آدمی جا رہے تھے رات کا وقت ہوا۔ ادھر بارش ہونے لگی تو ان تینوں نے بارش سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی۔ اتفاقا اوپر سے پتھر کی ایک چٹان گری جس سے غار کا منہ بند ہوگیا تو ان لوگوں نے کہا:
’’اس بڑی چٹان سے نجات پانے اور بچنے کا سوائے اس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ تم اپنے نیک اور خالص عملوں کے وسیلہ سے اللہ تعالی سے دعا کریں ۔
تو ان میں سے ایک نے کہا: خدایا ! میرا گزارہ صرف بکریوں پر تھا ۔ بکریاں چراتا تھا ۔ اور ان ہی کے دودھ سے تمام گھر والوں کی پرورش کرتا تھا چونکہ میرے ماں باپ بہت بوڑھے ہو چکے تھے اس لیے میں ان سے پہلے کسی گھر والے کو دودھ نہیں پلاتا تھا۔ بلکہ پہلے ان کو پلاتا، پھر بال بچوں کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک روز دیر سے واپس آیا تو والدین سو چکے تھے میں نے حسب دستور دودھ دوہا، والدین کے حصہ کا دودھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ دونوں سو گئے تھے ادب کی وجہ سے جگانا مناسب نہ سمجھا اور بغیر ان کے پلائے کسی گھر والے کو پلانا مناسب نہیں سمجھا، میں دودھ کا کٹورا لیے ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا کہ جب ان کی آنکھ کھلے گی، تو دودھ پیش خدمت کروں گا اس انتظار میں صبح ہوگئی، جب دن کو بیدار ہوئے تو دودھ پیا۔
’’اے اللہ! میں نے اس کام کو تیری خوشنودی اور تیری مرضی کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کو ہٹا‘‘
چنانچہ اس اخلاص عمل کی وجہ سے تھوڑی چٹان ہٹ گئی لیکن وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے اس لیے دوسرے کی باری آئی ، اور دوسرے نے کہا کہ: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ مجھ کو اپنے چچا کی لڑکی سے بہت محبت تھی اور میں اس سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا تھا وہ بچتی رہی اور میرے قبضے میں نہیں آئی یہاں تک کہ ایک سال قحط سالی کے زمانے میں معاشی حالت خراب ہو گئے تو بہت مجبور ہو کر وہ میرے پاس آئی اور قرض کی درخواست کی، میں نے اس کو ایک سو دینار اس شرط پر دیے کہ وہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے اور میری مراد پوری کر دے وہ اس کام پر رضا مند ہوگئی جب میں ہر طرح اس پر قابو پاچکا اور اس برے کام کے لیے بالکل آمادہ ہو گیا تو اس نے کہا ’’الله سے ڈر ، ناحق نہ کر یہ تیرے لیے حلال نہیں۔ میں اس سے ہٹ گیا جبکہ مجھے اس سے محبت تھی۔
’’ اگر میں نے اس کام کو محض تیری رضا مندی کے لیے کیا ہو تو اس مصیبت کو ہم سے دور کردے جس میں ہم گھرے ہوئے ہیں۔‘‘
چنانچه وہ چٹان کچھ اور ہٹ گئی۔ لیکن نکلنے کے قابل راستہ نہ ہو سکا۔ اب تیسرے نے کہا ” اے اللہ! میں نے ایک مرتبہ مزدورں سے کچھ کام لیا سوائے ایک کے سب کی مزدوری دے دی وہ اپنی مزدوری کو چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو زراعت پر لگا دیا اور اس سے بہت ترقی ہوگئی بہت مدت کے بعد وہ مزدور آیا اور اپنی مزدوری طلب کی، میں نے اس سے کہا کہ یہ سب کچھ اونٹ، گائے، بیل، بکریاں اور غلام و غیرہ سب تیرے ہیں سب لے جا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر میں نے کہا:میں مذاق نہیں کرتا۔ جب اس کو یقین آگیا تب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا ۔
’’اے اللہ! اگر میں نے اس کام کو تیری رضا مندی کے لیے کیا ہو تو اس چٹان کو ہٹا دے تاکہ ہم باہر نکل جائیں۔‘
چنانچه وہ چٹان اور ہٹ گئی اور سب باہر آگئے۔
(صحیح بخاری: کتاب احاديث الانبياء، باب حاديث الغار (رقم الحديث: 3465)
ریاکاری اور دکھاوے کی وجہ سے شاید ﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں ۔صحابہ کرامؓ کے ذہن میں ریاء کا اتنا خوف تھا کہ ان میں سے بعض کوشبہ ہونے لگا کہ لوگ ان کے نیک اعمال کی تعریف کرنے لگے تو کہیں یہ ریاء میں داخل نہ ہوجائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمل کرنے والے کے ارادہ اور کوشش کے بغیراگر دوسرے لوگوں کو اس کے اعمال کا علم ہوجائے پھر ان کو اس سے خوشی اور محبت ہوجائے تو یہ اخلاص کے منافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کی حقیقت
اور نیک اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ (آمین)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International