دب میں بدعتوں کے آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ادب کے ساتھ مخلص نہیں۔ یا ہمیں ادب کی ہمہ جہتی کا شعور نہیں یا پھر ہم ادب کے ارتقاء اور اس کی جہتوں میں ربط پیدا کرنے کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔
ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اردو ادب یا اردو شاعری میں کچھ برگزیدہ ہستیوں کے بعد آنے والوں کی شاعری پر توجہ نہ دینے اور اس کی عظمت کا اعتراف نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ابھی تک ہم غالب کے بعد کسی کو استاد ماننے، اقبال کے بعد کسی کو قومی درد کا شاعر ماننے اور فیض کے بعد کسی کو مزاحمتی شاعر ماننے کیلیے تیار نہیں۔
یہاں تک کہ قتیل شفائی کی بہترین شاعری کے باوجود اس کو فلمی شاعر کے علاوہ اس کی اصل پہچان دینے کیلیے تیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی شعراء “آکٹوپسی فطرت” کی گروہ بندیوں میں اپنی منفرد پہچان بنانے کی کوشش میں “اندھا دھند” سردگرداں نظر آتے ہیں۔
اسی اثناء میں چند “سطحی” شعراء نے اپنے حلقہِ احباب کی مدد سے اپنے احساسِ خودنمائی و خود ستائشی کو ایک عجیب رنگ دے رکھا ہے۔
ان شعراء کا نام نہ بھی لیا جائے تو ادب اور شاعری کے حقیقی خیر خواہ “ان ” کو بخوبی جان جاتے ہیں۔
ان کیلیے “سطحی” کا لفظ بہت موزوں لگتا پے۔
کئی دفعہ تو یہ سطحی یا ان جیسے “کچھ” اور شعراء اپنے مصاحبین خاص، نو عمر اور خوشامدی شعراء کے ساتھ کسی مشاعرے میں داخل ہوں تو لگتا ہے کہ ایک مکمل “قوال پارٹی” اپنے ہمنواؤں کے ساتھ یا کوئی ” بینڈ” اپنے سازندوں سمیت داخل ہوا ہے۔ یہ ماحول عملی اور متحرک بدعت کی تازہ مثال ہے۔
ادب میں بدعتوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ادب کو بھی سیاسی ، مذہبی اور نظریاتی زنجیریں پہنانے کی کوشش کی۔ ادب اسلامی اور ترقی پسند شعراء کی تخصیصی تفریق نے نیوٹرل/غیر وابستہ شعراء کو “داد پارٹیاں” بنانے کا موقع فراہم کر دیا۔
ایک شاعر نظم، غزل، نعت، حمد، سلام، مرثیہ اور اپنے سیاسی حالات کے پیش نظر مزاحمتی شاعری بھی کرتا ہے لیکن اس کو حمد و نعت کی وجہ سے “ادب اسلامی” میں کھینچنا، سلام اور مرثیہ کی وجہ سے “شاعرِ اہلبیت” کہنا، مزاحمتی شاعری کی وجہ سے اسے “ترقی پسند” شاعر کہنا در اصل ادب میں “فرقہ واریت اور بدعت” کو متعارف کروانے کے مترادف ہے۔
ہم ادبی ارتقاء کی تاریخ لکھنے میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔
آج کے ادبی مؤرخ کے پاس اپنی تحقیق کا کوئی ایجنڈا یا طریق کار نہیں۔
جس کا نام وہ سن لیتے ہیں وہ ادبی ارتقاء کا حصہ ہے۔
انگریزی کا ایک لفظ ہے Explore / Exploration اس کا تقاضا ہے کہ تحقیق کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر بھی کام کیا جائے۔ جو عصرِ حاضر کے ادبی مْؤرخین کے لیے خارج از ادراک ہے۔
دراصل ادب میں بدعتوں کے دخول کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے شاعر اور ادیب کو “ہمہ جہت” کہنے کی بجائے اس کی شخصیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ہیں ۔
سلیم کاوش
13 اپریل 2024
Leave a Reply