امت الحیات اپنا سر پکڑ کے لاونج میں فرش پہ ہی پیروں کے بل بیٹھ گئ تھیں، اچھا ہی کیا جو فوراً نیچے بیٹھ گیں اگر نہ بیٹھتیں تو جو چکر انھیں ایوارڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کو دیکھ کر آیا تھا، وہ اتنا شدید تھا کہ وہ لشکارے مارتی ٹیلوں پہ منہ کے بل گرتیں اور اپنی کوئی نہ کوئی ہڈی پسلی تڑوا ہی لیتیں مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ان کے ستارے اتنے بھی گردش میں نہ آئے تھے کہ اللہ پاک انھیں جسمانی آزمائش میں مبتلا کر کے ہسپتالوں کے کاریڈورز میں بے رحم ڈاکٹرز اور سفاک پیرامیڈیکلز کے رحم و کرم پہ ڈال دیتا.
اب آپ سب برملا پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ہوا جو اچھی خاصی صحت مند بلکہ لحیم شحیم امت الحیات اتنی دل برداشتہ ہوییں کہ انھیں اچانک ہی اتنا ہولناک چکر آ گیا، جی خبر کچھ ایسی ہی اچانک اور اندوہناک تھی، جسے اچانک سننے کے بعد کوی بھی ذی ہوش یا تو چکر کھا کے سمبھل جاتا یا پھر چکر کھا کے گر پڑتا اور ہڈی پسلی تڑوا کے اپنی جان کو درپیش سو مسائل میں ایک اور اچھے خاصے جان لیوا مسءلے کا اضافہ کر لیتا امت الحیات دیسی خوراک پہ پلی ہوی مضبوط کاٹھی اور انتہائی مضبوط اعصاب کی مالک خاتون تھیں. ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی امت الحیات یونیورسٹی میں اردو ڈیپارٹمنٹ کے ادارے کی سربراہ تھیں، . اردو پچھلی تین چار پشتوں سے ان کے خاندان کا اوڑھنا بچھونا ہی نہ تھی ان کے دادا، پردادا اور والد بلگرامی اردو ادب کے مایہ ناز لکھاری اور اردو ادب کی مان، شان اور آن تھے، خود امت الحیات کا نثر نگاری میں بڑا نام اور کام تھا، ملکی، غیر ملکی اور بیرون ممالک میں امت الحیات کے کام کو نہ صرف پسند کیا جاتا تھا بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، امت الحیات کے ایک ناول کو تو دنیا کے پہلے دس بہترین ناولوں میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا.
شہر میں ہونے والے تقریباً تمام ادبی پروگراموں میں ان کی صدارت لازم تھی. خیر اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی وہ ایک سچی، سچی اور کھری ادیبہ تھیں ان کی ادبی خدمات اہل ادب کے سامنے تھیں اور ان کی وضع داری کا یہ عالم تھا کہ پرکھوں کے نام کے علم کو انھوں نے بڑے حوصلے اور وقار کے ساتھ سر بلند رکھا تھا،امت الحیات کی جانب سے سب بہترین تھا مسایل کا گڑہ وہ نام نہاد اور جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا کر دیا جانے والا وہ ادبی جتھا تھا جن کا در حقیقت ادب سے دور دور کا واسطہ بھی نہ تھا، اسی بدبخت گروپ نے ادب کی بے ادبی کی انتہا کرنے میں کسی طور کوئی کمی نہ چھوڑ رکھی تھی، اور اگر آپ سچ سننے کا حوصلہ لے کر کھڑے ہیں تو یقین رکھیے، روپے پیسے کے لین دین یا آسان لفظوں میں پیٹ کی بھوک اور راتوں رات شہرت کے کھو کھلے خواب نےادب کو اتنا بے ادب اور کھوکھلا کر دیا کہ قلم بیان کرنے سے قاصر ہے، قیمتاً کتابیں لکھوانے سے چھپوانے اور چھپوانے سے بکوانے تک روپیہ رادھا کی مانند پیروں میں گھگھرو باندھ کے ناچتا ہے، سفارش اور اقربا پروری نے سچ میں لکھاریوں، ادیبوں اور شاعروں کو کھڈے لین لگا چھوڑا ہے، ادبی ایوارڈز، شیلڈز، میڈلز، سرٹیفکیٹس اور انعامات اللہ جانے کیسے کیسے اس سفارشی اور بے ادب ٹولے کے ممبران کی گود میں جا گرتے ہیں اور یہ جنیویں لکھنے والوں کی نہ صرف دل آزاری ہے بلکہ اس لوٹ مار نے ادب کی بے ادبی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی. امت الحیات یہ ادبی بے ادبی ایک عرصے سے دیکھ رہی تھیں مگر سواے کف افسوس ملنے کے َکچھ کر نہ سکتی تھیں، نوکری پیشہ ہونا بھی کتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے ناں؟؟؟
چلیں باقی تو جو تھا سو تھا آج چودہ اگست تھا اور چودہ اگست کو ملک کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر حکومتی سطح پر مختلف انعامات کی نامزدگی کا اعلان کیا جانا تھااور جب امت الحیات کے کانوں نے پراییڈ آف پر فارمنس شاعرہ کے نام پہ ایک بالکل نءی شاعرہ کا نام سنا جسے اردو لکھنا تو درکنار پڑھنا بھی نہ آتا تھا تویقین مانیے ان کے سر پہ لگی اور تلووں پہ بجھی اور وہ شدید چکر کھا کر گرتی گرتی بچیں ان کی آنکھوں میں آنسو آ گیے اور انھوں نے ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا.
کتنی معصوم ادا ہے رونا
بے بسی ہر عذاب سے بڑھ کر
ہچکیوں کے ساتھ روتے روتے ادب کے آشیاں پہ درخشاں امت الحیات ساری عمر ادبی دشت کی سیاہی میں کاٹنے والی ایک ادبی گھرانے کی ادیبہ بنا کسی میڈل اور سرٹیفکیٹ کے اپنی زندگی کی شام اور گھپ اندھیرے میں بس اتنا ہی کہہ پای،
؛ ادبی دنیا تیری بے ادبی کی خیر؛
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply