rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ادبی محفلیں تہذیب، احترام اور سخن فہمی کا مرکز سمجھی جاتی ہیں، جہاں الفاظ صرف جذبات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتے ہیں، نہ کہ کسی کی تضحیک یا دل آزاری کرنے کے لیے۔ تاہم اگر ایسی ادبی محفل میں کوئی شاعر ایسا کلام پڑھ دے جسے کوئی شریک شاعرہ اپنے لئے توہین آمیز یا جنس پرستانہ محسوس کر لے، اور اس کے ردعمل میں وہ شاعرہ طیش میں آکر شاعر کو تھپڑ رسید کر دے، تو اس پورے واقعے کو برطانوی قانون ایک مخصوص قانونی نظر سے دیکھتا ہے۔
پولیس اس پر کاروائی کرتی ہے اور عدالت سے فیصلہ کرواتی ہے۔
برطانیہ میں کسی کو تھپڑ مارنا، چاہے کتنا ہی ہلکا کیوں نہ ہو، “Common Assault” کے زمرے میں آتا ہے، جس کی تعریف “Criminal Justice Act 1988 (Section 39)” کے تحت کی گئی ہے۔ یہ قابلِ دست اندازی جرم ہے جس میں پولیس متاثرہ فریق کی شکایت پر کارروائی کرتی ہے۔ تھپڑ مارنے والی شاعرہ اگرچہ اخلاقی طور پر کسی کی توہین پر مشتعل ہوئی ہو، قانونی طور پر اسے حق حاصل نہیں کہ وہ جسمانی حملہ کر دے۔ قانون میں ایسے جذباتی ردعمل کے لیے “provocation” کو محض نرمی کی دلیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مکمل بریت کے طور پر نہیں۔
دوسری طرف اگر شاعر کا کلام واقعی ایسا ہو جس میں کسی کی عزت نفس مجروح کی گئی ہو، یا جو “harassment”, “hate speech” یا “grossly offensive communication” کے تحت آتا ہو، تو اس پر بھی کارروائی ممکن ہے۔ “Communications Act 2003 (Section 127)” کے مطابق کسی بھی فرد کو عوامی جگہ یا سوشل فورم پر ایسی بات کہنے کی ممانعت ہے جو شدید حد تک ہتک آمیز، فحش یا خوف و ہراس پیدا کرنے والی ہو۔ اگر شاعر کا کلام عورتوں کے بارے میں عمومی تضحیک آمیز ہو یا کسی خاص خاتون کو نشانہ بناتا ہو، تو “Equality Act 2010” کے تحت بھی یہ صنفی امتیاز کی صورت بن سکتی ہے۔
عدالت ان دونوں فریقوں کے اقدامات کو الگ الگ پرکھے گی۔ شاعرہ کے تھپڑ مارنے کا جرم، اور شاعر کے کلام کی نوعیت، دونوں کی قانونی جانچ ہوگی۔ اگر شاعرہ نے جسمانی حملہ کیا ہے تو اسے جرمانہ، معافی یا سوشل ورک کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن اگر شاعر کے کلام کو عدالت قانوناً “offensive” یا “harassing” قرار دے، تو اس پر بھی سزا عائد ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر شاعر کا کلام صرف ناپسندیدہ تھا، مگر قانونی حد عبور نہیں کرتا تھا، تو شاعرہ ہی قصوروار قرار پائے گی۔ شاعر کو بری کر دیا جائے گا۔
قانون کی نظر میں اشتعال انگیزی جذباتی ہو سکتی ہے، مگر جواب میں تشدد کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ برطانوی عدالتی نظام میں اگر مجرم خود ہی انصاف مانگے تو بھی اس کے جرم کو جرم ہی سمجھا جاتا ہے۔ قانونی دائرہ کار میں رہ کر شکایت درج کروانا ہی واحد مناسب راستہ ہے۔
یہ واقعہ سب اہل ادب کے لئے ایک سبق ہے کہ ادبی مجالس میں زبان کی تہذیب اور جذبات پر قابو رکھنا دونوں ضروری ہیں۔ اظہارِ ناپسندیدگی کا مہذب راستہ موجود ہے، اور قانون بھی ایسے معاملات میں متوازن نظر رکھتا ہے۔ عزت نفس کا دفاع بلا شک ضروری ہے، مگر قانون شکنی اس دفاع کو کسی صورت میں بھی قانونی جواز نہیں بنا سکتی۔
عدالت میں ممکنہ فیصلہ:
اگر دونوں فریق شکایت کریں:
شاعرہ پر: “Common Assault” کا مقدمہ بن سکتا ہے۔
شاعر پر: “Harassment” یا “Offensive Communication” کا مقدمہ بن سکتا ہے (اگر اس کا کلام واقعی قانونی حد عبور کرتا ہو)۔
اگر صرف شاعر شکایت کرے:
شاعرہ کے خلاف کارروائی ہوگی اور عدالت میں معافی مانگنے، جرمانہ یا سوشل ورک کی سزا ہو سکتی ہے۔
اگر صرف شاعرہ شکایت کرے:
پولیس دیکھے گی کہ کلام واقعی قانون کی نظر میں قابلِ اعتراض تھا یا صرف ناپسندیدہ۔
اگر کلام صرف “ناپسندیدہ” تھا مگر غیر قانونی نہ تھا، تو شاعر کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، بلکہ شاعرہ ہی قصوروار سمجھی جائے گی۔
عدالت کی ممکنہ سزائیں:
شاعرہ (اگر تھپڑ مارنے کی مرتکب ثابت ہو گئی ہو):
Warning or Caution (اگر پہلی بار ہے)
Fine (جرمانہ)
Community Service.
In rare cases: Short-term custodial sentence (نایاب صورتوں
میں، جیسے اگر شدید حملہ شاعر (اگر ثابت ہو کہ اس نے جان بوجھ کر ہتک آمیز، جنس پرستانہ یا نفرت انگیز کلام پڑھا):
Warning, Fine, or even a ban from public speaking events.
Court order to not contact the complainant.
Possible criminal charges under Public Order Act 1986 or Communications Act 2003.
قانونی نتیجہ کا انحصار کن باتوں پر ہوگا؟
1. کلام کا متن : کیا واقعی غیر قانونی تھا؟
2. نیت : کیا شاعر نے دانستہ کسی کو نشانہ بنایا؟
3. ردعمل کی شدت : کیا شاعرہ کا ردعمل جائز حدود میں تھا؟
4. شواہد : ویڈیو، گواہ، ریکارڈنگ وغیرہ
Leave a Reply