Today ePaper
Rahbar e Kisan International

اردو سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ

Articles , Snippets , / Tuesday, April 22nd, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

بھارتی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے حق میں ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جو نہ صرف اردو زبان و ثقافت کے تناظر میں اہمیت کا حامل ہے بلکہ بھارتی معاشرے کے لسانی تنوع اور رواداری کی آئینی بنیادوں کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مہاراشٹرا کے ضلع اکولا کی پاتور میونسپل کونسل کی عمارت پر اردو زبان کے سائن بورڈ کے خلاف سابق کونسلر ورشتائی سنجے باگاڑے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اردو زبان کو اس کا آئینی اور ثقافتی مقام واپس دلا دیا ہے۔
اردو زبان کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کے دل میں صدیوں سے پیوست ہے۔ دہلی اور دکن کے میل جول سے پیدا ہونے والی یہ زبان صدیوں تک ادب، شاعری، موسیقی اور سرکاری مکاتبت کی زبان رہی۔ مغلیہ دور سے لے کر نوآبادیاتی دور تک اردو نے برصغیر میں ایک مشترکہ لسانی شناخت قائم کی، جو ہندو مسلم یکجہتی اور گنگا-جمنی تہذیب کی علامت بن گئی۔ تاہم نوآبادیاتی حکمرانی نے اس لسانی ہم آہنگی کو مذہبی شناخت میں تقسیم کر کے اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان کے طور پر پیش کیا تھا اور یہی تصور آزاد بھارت میں بھی کئی حلقوں میں موجود رہا۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے واضح الفاظ میں فیصلے میں کہا کہ “زبان کسی مذہب کی نہیں ہوتی، بلکہ ایک قوم، علاقے اور عوام کی ہوتی ہے۔” اس عدالتی میں صرف لسانی مساوات کی وکالت نہیں کی گئی بلکہ ان تمام تعصبات کو بھی چیلنج کیا گیا جو زبان کو مذہب سے جوڑتے ہیں۔
عدالت عظمٰی نے قرار دیا کہ اردو اور مراٹھی دونوں کو بھارتی آئین کے تحت برابر حیثیت حاصل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مراٹھی مہاراشٹرا کی سرکاری زبان ہے، مگر اردو کو اس ریاست میں بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہ عوامی رابطے کی ایک موثر زبان ہے۔ پاتور میونسپل کونسل کے اردو سائن بورڈز کا مقصد عوامی ابلاغ ہے نہ کہ کسی مذہبی فوقیت کا اعلان۔
سپریم کورٹ نے ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ اردو بھارت کی چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو تقریباً تمام ریاستوں میں کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔ عدالت نے بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی بھی توثیق کی کہ اردو زبان کا استعمال غیر قانونی نہیں بلکہ قابل جواز اور آئینی ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف اردو بولنے والے عوام کے لیے ایک نفسیاتی و قانونی تقویت کا باعث ہے بلکہ یہ لسانی جبر اور تعصبات کے خلاف ایک عدالتی اعلان ہے۔ عدالت کا یہ جملہ کہ “زبان مذہب نہیں ہوتی” محض قانونی نکتہ نہیں بلکہ ایک فکری و تہذیبی بیان بھی ہے۔
اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ برصغیر کی مشترکہ تہذیب کی روح بھی ہے۔ غالب، میر، اقبال، فیض اور پروین شاکر جیسے عظیم شعراء کی زبان ہونے کے ناطے یہ ایک فکری اور جذباتی ورثہ ہے۔ اردو کا دائرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہذیب ہے جو مختلف مذاہب، قوموں اور علاقوں کو جوڑتا ہے۔
یہ فیصلہ بھارت میں اردو زبان سے متعلق مستقبل کی قانونی اور سماجی پالیسیوں کے لیے ایک اہم نظیر ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارتی آئین کے سیکولر اور کثیر الثقافتی اصولوں کے تحت تمام زبانوں، خصوصاً اقلیتی زبانوں کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ اردو کے خلاف امتیازی رویے نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ بھارتی معاشرے کے کثیراللسانی خدوخال کے بھی منافی ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اس امر کی دلیل ہے کہ زبانوں کو مذہبی، نسلی یا سیاسی خول میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ اردو، ہندی، مراٹھی، تمل یا بنگالی، ہر زبان اپنے بولنے والوں کا آئینی حق اور تہذیبی سرمایہ ہے اور ان کا تحفظ قومی وحدت کے لیے لازمی ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اردو زبان کی بقا، ترویج اور ثقافتی وقار کی بحالی کی جانب ایک تاریخی قدم ہے، جو آنے والے وقتوں میں بھارتی عدالتی تاریخ میں ایک روشن مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International