rki.news
تحریر۔۔۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔۔۔
پیارے قارئین! میرے نگر کے لوگ کس قدر بہادر اور بلند حوصلوں کے مالک ہیں ۔وطن سے محبت تو ان کی فطرت میں شامل ہے ۔ملک و ملت پر جان نچھاور کرنے کے جذبہ سے سرشار ہیں۔زندگی کا سفر ہنسی خوشی طے کرنا جانتے ہیں۔تاہم جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے ان کو وہ تعلیم ہے۔تعلیم ہی جذبہ الفت کی بنیاد ہے۔اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگی کا دارومدار بھی تعلیم پر ہے۔تعلیم یافتہ لوگ ہی آزمائشوں ،امتحانات اور زندگی کے سفر میں پیش آنے والے واقعات اور مناسب حل تلاش کرنے اور ثابت قدم رہنے اورافسردگی,پریشانی,اور غم زندگی برداشت کرنے میں خندہ پیشانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ لوگ بے بسی اور مظلومیت کی زندگء بسر کرنے والوں کی اعانت کرنا فرض سمجھتے ہیں ۔
۔غربت,افلاس اور محتاجی کے ستاۓ نجانے کتنے دکھ اور درد سینے میں چھپاۓ مستقبل روشن کے خواب دیکھتے ہیں۔اس خواب کی تعبیر تعلیم سے ہی مل سکتی ہے۔غربت زدہ لوگ اپنی غربت پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مستقل مزاجی سے زندہ رہنا معراج انسانیت سمجھتے ہیں۔تعلیم ایک روشنی ہے لیکن اس وقت اتنی مہنگی ہے اور بوجھ اس قدر قوی کہ قوت برداشت سے بھی زیادہ کہ قوم کے بچوں کو اس خوبصورت زیور سے آراستہ کرنا محض دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ تاہم پھر بھی بلند حوصلے اور ہمت سے کام لیتے ہیں۔چمنستان حیات کو تروتازہ رکھنے کے لیے علم کی شمع سے استفادہ کرنا ہی زندگی تصور کرتے ہیں۔۔افراد کے مابین الفاظ سے محفلوں کو سجانے والے شعروسخن کا جذبہ بھی موجود ہے۔احساس محبت اور الفت کے سبزہ زار کو زندہ کرنے کے لیے تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ہمدردی،مساوات سےلوگ زندگی کا سفر بہتر انداز سے طے کر سکیں۔آخری نبی حضرت محمد ﷺ یہی پیغام انسانیت کے لیے لاۓ تھے کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا،حقوق اللہ اور حقوق العباد کے مفہوم سے آگاہی اور عزت و احترام سے زندہ رہنے کا سلیقہ آپؐ کے پیش کردہ منشور انسانیت میں موجود ہے۔اس میں انسانیت کی کامیابی ہے۔یہ ملک پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ملک ہے اس لیے اس میں اسلامی نظام کی ضرورت ہے۔رزق حلال کمانے سے بہت سی خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں۔اخلاق سے پیش آنا اور معاشرتی آداب کا خیال رکھنا ایک کامیاب زندگی کا رہنما اصول ہے۔اچھے اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے زندگی بہتر بن سکتی ہے۔اظہار ہمدردی اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے سے معاشرت میں حسن وجمال پیدا ہوتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا۔
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھرشاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے (اقبالؒ)
گویا اس نگر کے لوگوں کی عظمت کا انحصار تعلیم پر ہے۔با مقصد تعلیم سے انسان خدا شناسی اور خود شناسی حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر پاتا ہے۔مایوسی اور نا امیدی تو زہر قاتل ہے۔اس لیے اس نگر کے لوگ صبح و شام متحرک رہتے ہیں۔بقول شاعر:-
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر (اقبالؒ)
کی ترنگ اور امنگ دل میں لیے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کی تڑپ رکھتے آگے بڑھتے ہیں۔وقت کی گردشوں سے خوف زدہ نہیں ہوتے بلکہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ہواؤں کا رخ موڑنا مقصد حیات سمجھتے ہیں۔قومی اور ملی تقاضوں کے مطابق زندہ رہنا اور وطن کی حفاظت کرنا جزو لازم سمجھتے ہیں۔نوجوان نسل کے اندر مثبت تبدیلی تعلیم کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔وقت کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ غیرت و حمیت سے زندہ رہنا معمول حیات ہو۔بقول شاعر:-
نگاہ بلند٬سخن دلنواز٬جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لیے (اقبالؒ)
Leave a Reply