rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اسرائیل نے اپنی جارحیت کے سلسلے کو مزید طول دیتے ہوئے، قطر کے شہر دوحہ کے اس مقام پر میزائل سے حملہ کیا ہے، جہاں حماس کے اہم رہنماؤں کا اجلاس ہو رہا تھا۔ یہ کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک کی سالمیت پر بلا جواز کھلم کھلا حملہ ہے۔ ایک ایسا حملہ جس کی اجازت دنیا کا کوئی قانون نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں اس کو کسی ملک کی خودمختاری پر براہ راست حملے سے تشبیہ دی جاتی ہے، لیکن اسرائیل خود کو اقوام عالم کے ان تمام قوانین سے بالا سمجھ رہا ہے۔ اس کی واحد وجہ اقوام متحدہ کا کمزور کردار رہا ہے۔ مختلف ممالک کی طرف سے اسرائیل کی کھل کر پشت پنہائی کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کی ایک وجہ مسلم ممالک کے آپس میں اختلافات بھی ہیں، جو سب کو ایک آواز کھل کر ایسے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ مسلمان ممالک مثال میں ان لکڑیوں کی طرح ہیں، جو ایک وقت میں اللہ کی رسی کیساتھ مضبوطی سے بندھی ہونے پر ایک بھرپور طاقت ضرور تھیں، مگر اس سے روگردانی کرنے پر الگ الگ ہو کر اب کمزور و ناتوان ہو چکی ہیں۔ اسرائیل اس کمزوری کا علم رکھتے ہوئے، اور اس کا کھل کر فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلے کئی ماہ سے غزہ پر ننگی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام عالم کی طرف سے اس جارحیت کی صرف مذمت کرنے سے اس کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ جبکہ تاریخ کے اوراق سے یہ سبق سب پر آشکار ہے کہ کچھ طاقتیں مذمت سے نہیں مرمت سے ہی اپنی حد میں رہتی ہیں۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اس کھلے عام کی گئی تازہ جارحیت پر بھی کمزور سا ہی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس میں وہی کتابی باتیں اس نادان شاگرد کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہیں، جس کو پڑھنے اور سمجھنے سے یہ شاگرد انکار کر چکا ہے ۔ اب ایک ایسے استاد کی بھی ضرورت ہے جو کتاب کے ساتھ رکھے ڈنڈے سے بھی کچھ سمجھائے۔ جس کے بعد اکثر شاگرد کتاب سے سبق یاد نہ بھی کریں مگر اس کو رٹا لگا کر رٹ ضرور لیتے ہیں۔ یہ حملے صرف مسلمانوں کی حمیت و غیرت دیکھنے کے لئے وقتا فوقتا کئے جاتے ہیں، اور مناسب ردعمل نہ ملنے پر مزید تقویت پا جاتے ہیں۔ غزہ پر جبری قبضہ کو خاموشی سے سہہ کر اسرائیل کو یہی پیغام دیا گیا ہے، کہ ابھی خون مسلم میں اتنا جوش نہیں آیا کہ محمد بن قاسم لشکر لے کر معصوم لوگوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوا سبق سکھانے پہنچ جائے۔ اقوام متحدہ سے نالاں کچھ ممالک زیادہ کرنے پر ایک او آئی سی کا اجلاس بلا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں ان تکالیف کا احساس ہے، مگر اجلاس کا اختتامیہ اقوام متحدہ کے اعلامیہ سے مختلف نہ ہونے پر ہر عام انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ اب انسانیت موت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔
قطر نے واشگاف الفاظ میں اس کو اپنی خودمختاری پر حملہ ضرور قرار دیا ہے، لیکن ایسے بیانات تو شام ، اردن اور دیگر ممالک نے بھی اپنے اوپر ہوئے حملوں کے بعد دئیے تھے۔ یہ وہ بیانات ہیں جو الیکٹرک میڈیا، سوشل میڈیا پر چلانے کو تو اچھے ضرور لگتے ہیں، اور اگلے دن کے اخبارات کی بڑی سرخیاں بننے کے بھی قابل ہیں، مگر اس سے اس نادان شاگرد پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جس کی چمڑی کافی موٹی ہو چکی ہے۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
اس کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ مسلمان ممالک میں بھائی چارہ کی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی ایک پر حملہ تمام ممالک پر حملہ تصور کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ اپنے مفادات کی دلدل سے نکل کر ہر مسلمان کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ۔ انسانیت کا بھلا دیا گیا سبق پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے، اور ہر بار کی مذمت چھوڑ کر اس نادان شاگرد کو اقوام عالم میں شرافت سے کس طرح رہا جاتا ہے کا سبق ازبر کروانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کچھ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
Leave a Reply