تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 22nd 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اسی پیڑی کے لوگ ہیں ہم

Articles , Snippets , / Monday, January 20th, 2025

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ
آپ کون ہیں؟
کب سے ہیں
کیسے ہیں؟
کیوں ہیں؟
اور کب تک رہیں گے؟
آپ کیا کھاتے ہیں؟
کیا پیتے ہیں؟
کیا پہنتے ہیں؟
کیسے جیون بتاتے ہیں؟
زندگی کے دن اور رات کیسے بتاتے ہیں؟
کس طرح کے سپنوں سے اپنے دن اور رات کو سجاتے ہیں؟
کن خوابوں کی بربادی پہ روتے دھوتے اور چلاتے ہیں؟
کیسے جیون بتاتے ہیں؟
کتنے دھکے کھاتے ہیں؟
اور کب کب مسکاتے ہیں؟
ارے کسی اور کی بات نہیں ہورہی میں اپنی اور ان تمام لوگوں کی بات کر رہی ہوں جنہیں آپ اور ہم سب جنریشن ایکس کہتے ہیں جی بالکل وہی ستر،اسی کی دہای میں پیدا ہونے والے نمونے، جنہیں تہذیب و تمدن اور ادب آداب کو سیکھنے سے بھی بے پناہ لگاو تھا اور اس ادبی بیٹھک پہ عمل پیرا ہونے کا جنون بھی. سچ میں ایسے کارٹون نما نمونے اس دور میں آج کل تقریباً ناپید ہو چکے ہیں.جن کا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا سب کچھ اپنے بزرگوں کے حکم کے انتظار میں رہتا
تھا. اچھی طرح سے یاد ہے شام کو ابا جی کے آنے سے پہلے گھر کے سب چھوٹے بڑے نک سک سے اپنے آپ کو اپنی اپنی جگہ پہ ترتیب دے لیتے تھے، بات یہ نہ تھی کہ ہمیں ابا جی کی ڈانٹ ڈپت یا مار کٹ سے ڈر لگتا تھا بڑی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کھای کٹ بھی پڑی، تھپڑ بھی کھاے، گال بھی لال ہوے مگر مجال ہے جو کبھی ماتھے پہ بل آیا ہو مجال ہے جو کبھی دل میں ابا جی یا ماں جی یا دادا دادی کے ادب احترام یا تعظیم میں کمی کے گوشوارے نے ذرا سا بھی سر اٹھایا ہو ماں کی جھڑکیاں تو کانوں کو اتنی بھلی لگتی تھیں کہ روزانہ بلکہ دن میں بار بار وہ جھڑکیاں، وہ روک ٹوک اور تنبیہات سننے کو دل چاہتا کہ دل مندر کو سو فیصد یقین تھا کہ والدین اور بزرگوں کی جھڑکیاں ہمارےلیے اور ہماری تعلیم و تربیت کے لئے بہت اہم ہیں.
اثاثہ
جھڑکیاں ماں کی اور با پ کی مار
سچ میں
دونوں بڑا اثاٹہ تھیں
تو میں آپ کو یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ ہم وہ لوگ ہیں جو پیدا ہی اتنے بڑے اثاثے کے ساتھ ہوے تھے. ہاں ہمیں اپنی اس سعادت اور فرمانبرداری کے صلے میں جو محبت، جو دعائیں ملیں ان کا بھی کوئی مول نہیں ہے وہ دعائیں عرش کے سینے کو پھاڑ کر مولا کے دربار میں حاضر ہویں اور صرف حاضر ہی نہیں ہویں قبول بھی ہویں. وہ قول ہے ناں کہ
باادب با نصیب
بے ادب بے نصیب
تو یہ مثل جنریشن ایکس پہ پوری طرح سے صادق آتی ہے
ہم نے ادب آداب کو نبھانے کی حد کر دی اور بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل اللہ پاک نے ہمیں نوازنے کی بھی حد کر دی……الحمد للہ
مجھے اچھی طرح سے یاد مجھے بچپن ہی سے بلکہ میرے پیدا ہوتے ہی بابا نے اپنے ہاتھوں میں لیکر کہا تھا کہ میری بیٹی ڈاکٹر بنے گی اور پھر میں نے کبھی دل میں جھانک کر دیکھا ہی نہیں کہ دل پگلا کس خواہش کو ٹھکانہ کرنا چاہتا ہے. میرا ہی ایک شعر ملاحظہ فرمائیں.
میں نے پوچھا ہی نہیں دل سے کبھی
دل وحشی،میں ٹھکانہ کس کا
اور واقعی میں باپ کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے میں نے دن رات ایک کر دییے تھے. اور ماں جب کسی برای سے روکنے کے لیے منہ پہ تھپڑ مارتی تھی تو ہم اپنا دوسرا گال بھی آگے کر دیتے تھے اپنی پیاری اور بھولی ماں پہ اعتماد ہی اتنا تھا کہ وہ کبھی کوی برا کام کر ہی نہیں سکتی. الٹا مار کھا کے بھی ماں ہی کو مناتے پھرتے تھے ماں ہی سے معافیاں مانگتے رہتے تھے. ہم اپنے ملازمین، کو بھی گھر کا فرد ہی سمجھتے تھے، چاچا غلام یا آپا پروین سے نیچے کسی کو مخاطب نہ کرتے تھے، ہمسایوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی ہمارا سلوک تہذیب و تمدن کے اعلیٰ پیمانے پہ پورا اترتا تھا. ماں نے جو کپڑے پہنا دیے بنا ماتھے پہ بل ڈال کر خوشی خوشی پہن لیے، ارے ہم تو وہ سادہ مزاج لوگ کہ اپنی شادی، ولیمے پہ بھی جو والدین اور سسرالیوں نے پہنایا آنکھیں بند کر کے پہن لیا نہ بیوٹی پارلرز کے طواف نہ درزیوں کی خوشامدیں، ساسو جی نے بھی جو کھلا دیا کھا لیا جو پہنا دیا وہ پہن لیا..
ہر حال میں ہی مست رہے ہم
مان لیتے ہیں خوش بخت رہے
. وقت کا پہیہ چلتے چلتے ہمیں اس موڑ پہ لے آیا کہ ہم بچوں والے ہو گیے ہم نے بچوں کے نازو ادا اٹھانے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی کھلونوں، کپڑوں کے ڈھیر لگا دییے ہم نے سوچا جن محرومیوں میں ہمارا بچپن گزرا بچے ان محرومیوں کا شکار نہ ہوں انھیں اچھے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھوایا، برانڈڈ کپڑوں جوتوں سے سچ میں انھیں نہلا دیا، ٹیب، آی فونز اور کمپیوٹرز کے جدید ترین ماڈلز کی چین کبھی ٹوٹنے ہی نہ دی، آن لاین شاپنگ اور کھانے کی سپلای بھی کبھی ختم ہونے میں نہ آی. ہم والدین تھے مگر ہماری جی حضوری تو ملاحظہ فرماییے کہ بچوں کے منہ سے نکلتی بعد میں ہے اور پوری پہلے ہو جاتی ہے ان کی شادیاں، بیرون ممالک میں تعلیم اور اس کے علاوہ سیرو سیاحت سب ایک آنکھ کے اشارے پہ ایسے ہیں ہم تابعداری میں ہماری جنریشن کا نہ کوئی تھا نہ کوی ہو گا. ہم ہی وہ پہلی اور آخری پیڑی کے لوگ ہیں جو اپنی فرمانبرداری اور اطاعت میں اپنی مثال آپ ہیں ہماری قدر کیجئے ہمارے سینے میں بھی دھڑکتادل ہے جسے جب چوٹ لگتی ہے تو وہ بلبلاتا بھی ہے وین بھی ڈالتا ہے ہمارے خواب بھی جب ٹوٹتے ہیں تو گیلی لکڑیوں کے جلنے والی آگ سے دھواں بھی خوب ہی اٹھتا ہے اور دل کے سارے کمروں میں سوگواری بھی خوب ماتم کرتی ہے ہمارے مسکراتے ہوئے چہرے پہ مت جاییے گا ہماری پیڑی کے لوگوں کے دل گر چہ بہت مضبوط ہیں پھر بھی ہیں تو انسان ہی ناں. آخر میں بس اتنا ہی کہ ہم ہی اس پیڑی کے پہلے اور آخری نایاب لوگ ہیں جو اپنے بزرگوں کے لاڈ بھی اٹھاتے تھے اور اپنے بچوں کے بھی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International