rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ٹھنڈ صرف موسمی ٹھنڈ ہی جان کا عذاب نہیں ہوتی، لہجوں کی ٹھنڈ ،برے رویوں کی ٹھنڈ، بے بسی اور محرومیوں کی ٹھنڈ کبھی کبھار موسمیاتی ٹھنڈ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ جاتی ہے، ویسے تو ٹھنڈ بذات خود استعارہ عشق ہے کہ جاڑا اور گلابی جاڑا، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تمام اہل دل کا پسندیدہ موسم رہا ہے،اور عاشق تو اس موسم کی دھوپ کے دیوانہ وار دیوانے ہوتے ہیں.
میسر دھوپ ہو سرما کی دلبر
نشیلی رت کی اک برکھا بہت ہے
کبھی کبھار موسمی ٹھنڈ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے،لہجوں کی بد صورتی اور رشتوں میں بے مروتی کی ٹھنڈ، جو نہ آپ کو جینے جوگا چھوڑتی ہے نہ مرنے جوگا.
قرات نے ویلوٹ کی شال کو اچھی طرح اپنے بدن پہ لپیٹا اور ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر مونگ پھلیاں چھیل چھیل کے کھانے لگی، اسے اس بات کی قطعاً پروا نہ تھی کہ باہر سردی کیا گل کھلا رہی تھی.م؟ سردی میں ٹھٹھرنے والوں. میں زیادہ تر غریب غربا ہی تھے، مزدور، دیہاڑی دار، جو پرندوں کی طرح اللہ توکل ہو کر گھروں سے نکل آے تھے، وہ یتیم و مسکین لڑکے جو صبح ٹھٹھرتے ہوے سکول جاتے کہ شاید دو حروف پڑھ کر ان کا شمار بھی پڑھے لکھوں میں ہو جاے اور رات کو گرم آنڈے بیچنے نکل پڑتے کہ شاید گھر کے ٹھنڈے پڑتے چولہے کو کسی حد تک گرم رکھنے کے اہل ہو پاییں، غور فرمائیے گا اس یخ بستہ دسمبر میں جب سب چھوٹے بڑے ہیٹر جلا کے رضای، کمبلوں میں اپنے آپ کو گرم کرنے کے جتن میں مصروف اور یہ نمانے ٹھٹھرتے ہوے روزی روٹی کمانے کے لیے سو سو جتن کرتے ہوے بے بس کی تصویر بنے ہوے. ان بے بسوں سے تو ہزار درجے بہتر ہیں جو بے گھر ہیں، بنجارے ہیں، Home less persons. بے گھر افراد
گھر نہیں ہوتے یہ یا تو جھگیاں بنا کر رہتے ہیں یا ویسے ہی فٹ پاتھ یا کسی گلی، درگاہ، مسجد، مندر، پارک یا باغ چوراہے میں تھک ہار کر یا کش لگا کر بے خبر سو جاتے ہیں موسموں کی طغیانی اور بلا خیزی بھی ان کا کچھ بگا ڑنے سے قاصر ہی رہتی ہے، یہ کبھی کبھی جب تھک ہاع کر سوتے ہیں تو پھر سوے ہی رہ جاتے ہیں اور پھر پولیس والے انھیں نامعلوم افراد کی فہرست میں شامل کر کے دفنا بھی دیتے ہیں. ہاں سانس لیتے ہوے بے گھر افراد نہ معاشرے کو اور نہ حکومتی اہلکار کو دکھای دیتے ہیں، نہ ہی اہل منصب ایسے بنجاروں کے لیے کسی قسم کی مدد فراہم. کرنے کے. لیے غور و فکر یا سوچ بچار کرتے ہیں، سوچیے ہمیں گھر میں ٹوتھ پیسٹ سے لیکر ٹوتھ پک. تک. کتنی زیادہ سہولیات میسر ہوتی ہیں مگر بے گھر افراد کیسے سسک سسک کے تن کے کپڑوں اور بے خواب آنکھوں کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں؟ ماں کا پیٹ بھی ایک انتہائی محفوظ پناہ گاہ ہے اور یہ پناہ گاہ پورے نو ماہ تک بچے کو بڑے مان کے ساتھ سنبھال کے پروان چڑھاتی ہے، والدین بھی اپنے بچوں کو بڑی محبت سے گھروں میں پالتے پوستے ہیں مگر بوڑھے ہو کر یہی والدین کبھی کبھار در بدر بنجارے بنتے بھی دیکھے گیے ہیں تو غور فرمائیے گا کہ ان ہر طرح کے بنجاروں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بھی کوی الگ سے محکمہ ہونا چاہیئے جو ان کی دیکھ بھال، کھانے پینے اور رہن سہن کا بندوبست خوش اسلوبی سے کر سکے.
بنجارے. بنجارے کا کوی گھر نہیں ہوتا
اس کا تو کوی در نہیں ہوتا
نہ ہی ہوتی ہے اس کے سر پہ چھت
اس کے تو کوی سر نہیں ہوتا
کہاں جیتا ہے سانس لیتا ہے
اس سے تو سچ میں مر نہیں ہوتا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply