تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین !کلام سخن و شعر وہی اچھا ہوتا ہے جو دل کے دریچوں میں ایک باد نسیم کی مہک کا پیام دے۔کلام اقبال ہی تو ایک ایسا کلام ہے جس سے دل کے دریچوں میں ایک رونق اور بہار پیدا ہوتی ہے اور خفتہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ایک بیدار مغز شاعر نے منفرد انداز سے شعرو سخن کے شگفتہ پھول پیش کر دیے کہ ہر دل کی آواز بن گۓ۔اقبالؒ شاعر مشرق کے نام سے معروف ہوتے ہی عالمی شہرت یافتہ شاعر اور فلسفی کا اعزاز حاصل کر لیا۔بڑے بڑے اصحاب فن نے اس موضوع پر متاع قلم سے موتی بکھیر دیے جن سے قارئین اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں۔راقم کی بھی ایک تمنا مختصر سی کہ کچھ تو لکھ دوں۔اسی جذبہ سے چند باتیں لکھنا سعادت سمجھتا ہوں۔یہ حقیقت بھی ہے کہ اقبال کے فلسفہ شعروسخن میں ایک پیام ہے۔عشق و مستی کی لہروں میں اضطراب ہے۔ایک تڑپ اور لگن کی کیفیت نمایاں ہے۔ایک آس اور امید ہے۔نوجوان ملت کے لیے ایک پیام عمل بھی ہے۔کلیات اقبال شعرو سخن کا ایک قلزم بے کراں کی مانند معلوم ہوتا ہے۔اس کے مطالعہ سے انسان علم و حکمت کے موتی تلاش کرتے حقیقت آشنا بھی ہوتا ہے۔اسرار خودی سے واقفیت اور عشق و مستی کے سرور سے آگاہ ہوتا ہے۔محبت الٰہی اور حب رسول کی حقیقت آشکار ہونے سے بندہ مومن کا مقام قاری کو معلوم ہوتا ہے گویا اقبال کے کلام میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے ایک رہنمائی موجود ہے جس سے وقار انسانیت نہ صرف بلند ہوتا ہے بلکہ احترام آدمیت کے راز سے بھی آشنائی ملتی ہے۔کلیات اقبال میں بے شمار عنوانات ہیں جن میں نظمیہ کلام اپنی جاذبیت کی وجہ سے بے مثال ہے۔غزلیات میں بھی ایک چاشنی اور امنگ غالب نظر آتی ہے۔عشق رسول میں اس قدر غرق کہ بے ساختہ نوک قلم سے موتی بکھر گۓ۔بقول اقبال
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینۂ رنگ تیرے محیط میں ہے حباب
کلیات اقبال کی فہرست کتنی حسیں ہے۔
ہمالہ،گلِ رنگیں،عہد طفلی،ابر کوہسار،بچے کی دعا،ہمدردی،ماں کا خواب،پرندے کی فریاد،شمع و پروانہ،عقل و دِل،صداۓ درد،آفتاب،شمع،ایک آرزو،آفتاب صبح،دردِ عشق،چاند،بلالؓ,سرگزشت آدم,کنارِراوی,التجاۓ مسافر,محبت,حقیقت حسن,پیام,اختر صبح,حسن و عشق,چاند اور تارے,وصال,عاشق ہرجائی,پیامِ عشق,فراق,گورستان شاہی,فلسفۂ غم,نوید صبح,شبنم اور ستارے ,شعاع آفتاب اور غزلیات سمیت بے شمار عنوانات سخنِ اقبال کی دولت و ثروت ہیں۔عہد حاضر میں انسانیت بے قراری کا شکار ہے جس کا خاتمہ اقبال کے ایک شعر پر غورو فکر سے ممکن ہو پاتا ہے۔بقول اقبالؒ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
گویا کلام اقبال میں اصول مقصدیت کی ایک جھلک پائی جاتی ہے۔بقول اقبالؒ
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
خودی،شاہین،مومن،کا تذکرہ تو کلام اقبال کی زینت ہے۔اور بھی عنوانات خوبصورتی کی علامت ہیں۔عہد حاضر میں کلام اقبال کی اہمیت اتنی ہی اہم ہے جتنی آغاز کلام اقبال کے وقت تھی۔بقول اقبالؒ
اٹھ کہ بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ زندگی کا سفر چونکہ انتہائی مختصر ہے کلام اقبال کے آئینہ میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔انہوں نے مسلمانوں کو ان کا مقام بتانے کی بھرپور کوشش کی۔بقول اقبالؒ
مسلم خوابیدہ اٹھ ہنگامہ آراء تو بھی ہو
نکل آئی وہ سحر گرم تقاضا تو بھی ہو
گویا کلام اقبال کے مطالعہ سے ایک جذب و مستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
Leave a Reply