Today ePaper
Rahbar e Kisan International

امریکی صدر کی پالیسی یا معاشی خودکشی کا نسخہ

Articles , Snippets , / Monday, April 7th, 2025

rki.news

عالمی معاشی حالات جس قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہیں اس نے دنیا کی سب سے مضبوط معاشی منڈیوں کو شدید بحران کی طرف دھکیلنا شروع کردیا ہے ان میں امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت سمجھی جاتی تھی آج جس دوراہے پر کھڑی ہے، وہاں سے واپسی آسان نظر نہیں آتی پر امریکی صدر کی نئی اقتصادی پالیسیوں نے امریکہ سمیت عالمی مارکیٹس کو زبردست جھٹکا پہنچایا ہے، یہ کہنا شاید جذباتی لگ رہا ہو کہ یہ پالیسیاں امریکہ کی تباہی میں “آخری کیل” ثابت ہوں گی، لیکن اگر معاشی حقائق کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں تو یہ کہنا بے جا بھی نہیں۔ معاشی استحکام کا توازن باریک دھاگے سے بندھا ہوتا ہے ایک غلط فیصلہ پورا نظام ہلا دیتا ہے۔
امریکی صدر کی حالیہ معاشی پالیسیوں کو اگر ایک جملے میں سمیٹا جائے تو کہا جائے گا کہ یہ: “ظاہری نمو، باطنی زوال” ہے کیونکہ اعداد و شمار بظاہر تو خوش نما ہیں، لیکن اصل کہانی ان نمبروں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے،حالیہ برسوں میں امریکی معیشت کو متعدد چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جن میں افراطِ زر، بے روزگاری، قومی قرضہ، اور مالیاتی عدم توازن شامل ہیں۔ موجودہ امریکی صدر کی معاشی پالیسی کو بعض ماہرین اور ناقدین “خطرناک” قرار دے رہے ہیں، اور اسے امریکہ کی اقتصادی تباہی کی طرف ایک قدم بلکہ بعض کے نزدیک “آخری کیل” سمجھا جا رہا ہے
جب دنیا بھر کے ممالک اپنے بجٹ کے کیل کانٹے درست کرنے میں لگے ہوئے تھے، امریکہ نے ایک انوکھا فیصلہ کیا: “پیسہ چھاپو، سب ٹھیک ہو جائے گا!” اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا — سچ مچ سب “ٹھیک” ہو گیا، لیکن صرف اُن کے لیے جو پہلے ہی ٹھیک تھے۔
امریکی صدر کی معاشی پالیسی گویا کسی دیسی حکیم کے نسخے جیسی ہے: “سستی، فوری، اور لمبے عرصے تک مہلک!” پہلے بازار میں پیسہ پھینکو، پھر حیرانی سے پوچھو کہ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے؟ ایسے ہی جیسے کسی کو روز برگر کھلا کر پریشان ہونا کہ وزن کیوں بڑھ رہا ہے
امریکی قوم پر قرض اتنا چڑھ چکا ہے کہ ناسا کو چاند کے بجائے اب قرض کی بلندی ناپنے کے لیے راکٹ بھیجنے چاہئیں۔ ہر شہری کا حصہ اتنا ہے کہ اگر کسی دن یہ قرض واقعی واپس کرنے کا اعلان ہو جائے تو شاید سب واپس جنگلوں میں جا بسیں۔ صدر صاحب فرماتے ہیں، “ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں”…
مگر یہ بیان میرے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے کوئی گاڑی کھائی میں نیچے کی جانب تیزی سے لڑھک رہی ہو اور ڈرائیور خوش ہو کہ خود باخود رفتار بڑھ گئی ہے اور جب انڈے، دودھ اور پیٹرول کی قیمت میں روز اضافہ ہو تو عوام کو دو ہی چیزیں میسر رہ جاتی ہیں: قسطوں پر زندگی اور قسطوں پر خواب۔
صدر صاحب کی پالیسیوں نے مہنگائی کو ایسا پر لگایا ہے کہ اب تو نوٹ بھی شرمندہ ہیں کہ ہم میں برکت کیوں نہیں۔ معیشت کو سہارا دینے کے نام پر جو پیسہ چھاپا گیا، وہ اب عام آدمی کی جیب کو جلا رہا ہے،
فیڈرل ریزرو شرح سود ایسے بڑھا رہا ہے جیسے کوئی بچہ ویڈیو گیم میں اسپیڈ لیول بڑھاتا ہے “بس اور تھوڑا، اور تھوڑا۔۔!”
مقصد تو افراطِ زر کو روکنا تھا، لیکن اب کاروبار رو رہے ہیں، گھر خریدنے والے پریشان ہیں، اور بینک ہنس رہے ہیں۔ واقعی کمال کا معاشی نظام ہے!
دنیا بھر کے سرمایہ کار اب امریکہ کو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی رشتہ دار اچانک بابا بن جائے جن کے متعلق کہا جاتا ہے “اچھے تھے، پر اب سمجھ سے باہر ہو گئے ہیں” تجارتی پالیسیاں غیر متوازن، ٹیکس قوانین غیر واضح، اور دنیا کے ساتھ تعلقات ایسے جیسے نو عمری کی محبتیں۔۔۔ جن کا حاصل جذباتی، ناپائیدار، اور اکثر شرمندگی کا باعث ہوتا ہے اگر موجودہ پالیسیاں جاری رہیں تو امریکہ واقعی معاشی خودکشی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے
ایسے میں صدر صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر خطاب کے آخر میں ایک نیا نعرہ شامل کریں:
“ہم نہ صرف معیشت کو سنواریں گے، بلکہ اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا موقع بھی پیدا کریں گے مگر مکمل تباہی کے بعد!”

شازیہ عالم شازی
بنتِ پاکستان کے قلم سے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International