Today ePaper
Rahbar e Kisan International

امریکی ٹیرف کےخلاف جنگ

Articles , Snippets , / Friday, May 30th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

چین اور کچھ دوسرے ممالک نے امریکی طاقت کو ختم یا محدود کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔چین مقابلہ کرنے کے لیےہر قسم کے جتن کر رہا ہےاورکامیابی حاصل ہوگی یا نہیں،مستقبل میں اس کاعلم ہو سکے گا۔اس وقت امریکہ کے خلاف ایک لہر چل پڑی ہے،جس میں سنجیدگی سےامریکی برتری کوچیلنج کیا جا رہا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےٹیرف میں غیر معمولی اضافے کا اعلان کر کےدنیا بھر کو چونکا دیا تھا۔اس وقت اندازے لگائے جا رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ اعلانات معاشی لحاظ سےامریکہ کو کمزور کر دیں گے،لیکن امریکی صدرنے بہت سے مسائل پرقابو پالیاہے۔ٹرمپ کا مشرق وسطی کا دورہ امریکہ کے لیےکافی فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ایک بھاری سرمایہ کاری امریکہ میں ہونے جا رہی ہے،جس سے امریکی معیشت مضبوط ہو جائے گی۔دیگر ممالک کے ساتھ بھی بات چیت چل رہی ہےاور کچھ عرصہ کے بعد نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔امریکی صدر نے ٹیرف میں اضافہ صرف چین کے لیے نہیں کیا بلکہ یورپی یونین سمیت بہت سے ممالک کے لیےٹیرف میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔چین تو امریکی طاقت اور معیشت کے خلاف فیصلہ کن جنگ چھیڑ چکا ہے۔یورپی یونین کی طرف سے بھی امریکی معیشت کےخلاف کچھ فیصلے ہو سکتے ہیں۔معاشی لحاظ سے جنگ تیز نظرآرہی ہے لیکن دوسری طرف سرد جنگ کا ماحول بنا ہوا ہے۔چینی وزیراعظم لی چیانگ نے جنوب مشرقی ایشیائی اقوام کی تنظیم(آسیان)اور خلیج تعاون کونسل(جی سی سی)کے رکن ممالک پر زور دیا کہ مشترکہ طور پر کھلے پن، ترقیاتی تعاون اوربین الثقافتی انضمام کی مثال قائم کریں۔چینی وزیراعظم نےملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں منگل کو منقدہ آسیان اور جی سی سی کےاراکین سے خطاب کیااور یہ سب امریکی ٹیرف کےمعاملات سے نمٹنے کے لیے جمع ہوئے۔ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان نےکافی ممالک کے لیےپریشانی پیداکی ہوئی ہےاور اس پریشانی سے نمٹنے کے لیےیہ بڑا اجلاس ہوا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق آسیان اور خلیج تعاون تنظیم کے مشترکہ اجلاس سےملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے بھی خطاب کیا۔انور ابراہیم نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آسیان اور جی سی سی کے اراکین کو باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ترقی کے سفر کو جاری رکھا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں آسیان اورخلیجی تعاون تنظیم کے درمیان مضبوط تعلقات کی ضرورت اس سے قبل اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔انور ابراہیم کاخطاب معنی خیز ہےاور ان کا یہ کہنا کہ مضبوط تعلقات کی بہت زیادہ ضرورت ہے،امریکہ کے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔مضبوط تعلقات امریکی ٹیرف کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور اس کے لیےایک لائحہ عمل ترتیب دےکر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا آسیان یا کوئی دوسرا ملک یا تنظیم امریکی ٹیرف کا آسانی سے مقابلہ کر سکے گی یا نہیں؟امریکہ کا مقابلہ کرنا فوری طور پر مشکل ہے لیکن کچھ وقت کے بعد امریکہ کو بھی پریشان کیا جا سکتا ہے۔امریکہ کے خلاف مشترکہ جدوجہد جاری رکھ کےمعاشی ضرب لگائی جا سکتی ہے۔امریکہ کی معیشت فی الحال کمزور نظر نہیں آتی اور مزید سرمایہ بھی امریکہ کے لیےحاصل کیا جا رہا ہے،اس لیے یہ نہیں کہاجا سکتا کہ امریکہ کو فوری طور پرنقصان پہنچایا جا سکتاہے۔ایک اور وجہ بھی امریکہ کی مضبوط کی ضامن ہے کہ ڈالر کے ذریعےبین الاقوامی تجارت کی جا رہی ہے۔جب تک ڈالر کی اجارہ داری ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک امریکہ کو بھی کمزور یامحدود نہیں کیا جا سکتا۔ڈالر کے مقابلے میں برکس کرنسی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کومارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔دوسری کرنسیاں بھی امریکی ڈالر کا مقابلہ کر رہی ہیں،لیکن فی الحال ڈالر کی مضبوطی ابھی تک قائم ہے۔چین کو ابھی تک وہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کو غیر معمولی کہا جا سکے۔چین کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ سمیت دیگر طاقتوں کو بھی شکست دے سکے۔امریکہ نےروس یوکرین جنگ میں اپنی برتری واضح کر دی اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک کو بھی علم ہو گیا کہ امریکہ کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔یہ کہناکہ مقابلہ کرنا آسان نہیں، درست ہے لیکن مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ماضی میں بہت سی سپر پاورز تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔کئی طاقتیں جوناقابل شکست سمجھی جاتی تھیں،اب تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔امریکہ کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اس کا مقابلہ کیا بھی جا رہا ہے۔امریکہ ہو سکتا ہےلمبے عرصے تک اپنی مضبوط پوزیشن کو برقرار رکھ سکے،لیکن کچھ نہ کچھ غلطیاں ایسی ہو جاتی ہیں جو کسی بھی طاقت کے لیےپریشان کن ہوتی ہیں۔ہو سکتا ہے امریکی صدر کےفیصلے مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہوں،لیکن فوری طور پر تو ان کا بہتر ہونا نظرآ رہا ہے۔
اسیان اور جی سی سی کے اراکین میں کئی ایسی ممالک بھی شامل ہیں جو انتہائی کمزور پوزیشن پر ہیں۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ بھی ملائیشیاپہنچ چکے ہیں اور دیگر بھی پہنچ رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام اراکین امریکہ کے خلاف کوئی فیصلہ کن سرگرمی شروع کر سکتے ہیں؟سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک امریکہ کے خلاف کسی سرگرمی میں مشکل سے شامل ہوں گے۔لیکن اگرآسیان اور جی سی سی کے تمام اراکین ممالک اس فیصلے پر قائم ہو جاتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے امریکہ کا مقابلہ کیا جائے گا،تو امریکہ کے لیے شدید پریشانی پیداہو جائے گی۔وہ کمزور ممالک جن پر امریکی اثرورسوخ زیادہ ہے،ان کےلیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کر سکیں۔چین اگر اپنی طاقت واضح طور پر ثابت کر دے تو کئی ممالک چینی بلاک میں آسانی سے شامل ہو جائیں گے۔کوششیں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ کا مقابلہ کیا جا سکے۔کوالالمپورکےاجلاس میں جس طرح اتحاد کی باتیں کی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا گیاہے کہ متحد ہو کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔صرف امریکی ٹیرف جنگ کا ہی مقابلہ کرنا شروع کر دیا جائے تو امریکہ کو بھی آسانی سے”ٹیرف جنگ” میں شکست دی جا سکتی ہے۔شرط یہی ہے کہ تمام ممالک خلوص نیت سے کام شروع کر دیں۔امریکی ٹیرف پوری دنیا کے لیےمسائل میں اضافہ کر رہا ہے۔ہو سکتا ہےامریکی ٹیرف کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہو جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International